تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی وہ خوف و دہشت میں لپٹا زندہ لاش کی طرح میرے سامنے بیٹھا تھا ‘خوف ‘درد ‘دکھ اُس کی ہڈیوں تک اُتر گیا تھا اُس کی رگوں میں خو ن کی بجائے کرب اور خوف دوڑ رہا تھا اُس کے اعصاب بُری طرح بکھر چکے تھے اُس کی آنکھوں میں زندگی کی چمک مدہم پڑتی جا رہی تھی خو ف اُس کے جسم اور روح کو امر بیل کی طرف چاٹ رہا تھا وہ بیس کروڑ زندہ لا شوں کے اِس ملک میں زندگی اور انصاف کی بھیک ما نگتا پھر رہا تھا وہ مایوسی کی قبر میں دفن ہو تا جا رہا تھا خو ف اُس کو دیمک کی طرح چاٹ رہا تھا وہ ایک شریف جوان تھا اُس نے کو ئی گناہ نہیں کیا تھا اُس کو ناکر وہ جرم کی سزا دی گئی تھی اُس کے چہرے پر زندگی کی سرخی کی جگہ موت کی زردی بڑھتی جا رہی تھی اُس کے جسم کے انگ انگ سے آنسو برس رہے تھے اُس کا جسم خزاں زدہ پتے کی طرح لرز رہا تھاوہ شدید کر ب سے بید مجنوں کی طرح لرزنا شروع کر دیتا وہ فرعونوں کے اس دیس میں موسیٰ کی تلاش میں تھا۔
اُس کے جسم کا رواں رواں مدد مدد پکا ر رہا تھا وہ زندگی کی بھیک ایک در سے دوسرے در مانگ رہا تھا امید کرن کو تلاش کر تے کر تے وہ مجھ فقیر تک آپہنچا تھا روزانہ کی طرح میرے ملا قاتیو ں میں بہت سارے لو گ آئے ہو ئے تھے انہی ملا قاتیوں میں تیس سالہ جوان بھی کھڑا تھا انتہا ئی شرافت اور مہذب انداز میں اپنی بار ی کے انتظار میں تھا وہ آخر میں آرام سے بات کر نا چاہتا تھا اُس کے چہرے کی اداسی مجھے جلد ہی اُس کے پاس لے گئی اُ س کے پاس بیٹھ کر میں نے شفقت بھری مسکراتی نظروں سے اُس کی طرف دیکھا اور کہا جناب میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں میرے روئیے سے اُس کے اشکوں کا سیلاب بہہ نکلا اُس نے آنکھوں کے چھپر کھول دئیے تا کہ غم میں ڈوبا سمندر بہہ جا ئے وہ خوب بلک بلک کر رونے لگا میں اُس کو شفقت بھری تھپکیاں دیتا رہا جب اُس نے خو ب رو کر خو د کو ہلکا کر لیا تو اپنا غم سنانا شروع کیا۔
سر میں پچھلے 8سال سے دوبئی کی انٹرنیشنل فرم میںج اب کر تا ہوں اپنی محنت سے میں آجکل اچھی پو سٹ پر ہوں اور اچھا خا صا کما لیتا ہوں اللہ تعالی نے میرے رزق کے دروازے وا کئے تو میں نے اِس تعجب کو اپنے رشتہ داروں میں بانٹنا شروع کر دیا خاندان میں جس کو بھی میری ضرورت ہو تی میں دل کھول کر اُس کی مدد کر تا اِسی جذبے کے تحت میں چھ ماہ پہلے خاندان میں کسی یتیم بیٹی کی شادی کے لیے پا کستان آیا میں ساہیوال شہر کا رہنے والا ہو ں یتیم بچی راولپنڈی رہتی تھی میں اُس کے لیے پیسے اور بہت سارے تحفے وغیرہ لے کر اپنی گا ڑی میں راولپنڈی روانہ ہوا راستے میں گجرات شہر میں رات کا کھانا کھا یا کھا نا کھانے کے بعد جب شہر سے نکلنے لگا تو پو لیس ناکے پر پو لیس نے مجھے روکا اور کہا گاڑی کے کاغذات چیک کرائو میں نے کاغذات وغیرہ چیک کرا ئے پو لیس والوں نے کہا آپ کے کا غذا ت ٹھیک نہیں ہیں ہما رے ساتھ پو لیس تھا نے چلو کیونکہ میں بے گنا ہ تھا اور میرے کاغذات بھی پو ر ے تھے اِس لیے میں بے خو ف خطر پو لیس والوں کے ساتھ چل پڑا۔
پولیس میرے ساتھ بیٹھ گئے میں اُن کے اشاروں پر گا ڑی چلا نے لگا جب ہم شہر سے نکلنے لگے تو میں نے کہا آپ مجھے کہا ں لے کر جا رہے ہیں تو انہوں نے کہا خا موشی سے چلو میں مجبو را اُن کے اشاروں پر گا ڑی چلاتا رہا آخر ہم شہر سے با ہر ویرانے میںآگئے مجھے خطرے کی بو آرہی تھی لیکن میں اُن کے اشاروں پر چلنے پر مجبو ر تھا آخر کا ر چلتے چلتے ہم کسی گا ئوں کے با ہر کسی ڈیرے تک پہنچ گئے مجھے احساس ہو چکا تھا کہ میں شدید خطرے میں گھر چکا ہوں لیکن مجھے حو صلہ یہ تھا کہ مجھے پو لیس نا کے پر پو لیس کی وردیوں میں ملبوس عملے نے پکڑا ہے یہ ہما رے محا فظ ہیں یہ میرے ساتھ ظلم زیاد تی نہیں کریں گے کیونکہ میںتو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پو لیس والے خود ڈاکوہیں یہ خود میرے اغوا میں ملوث ہیں میں نے کافی احتجاج کیا کہ آپ مجھے کہاں لے کر آگئے ہیں تو سب انسپکٹر نے بے دردی سے مجھے مارنا شروع کر دیا کہ تم دہشت گرد ہو ہم نے تم کو پکڑ لیا ہے۔
اگر تم نے آواز نکا لی تو تم کو ابھی قتل کر دیا جائے گا یہ الزام سن کر میرے پا ئوں تلے سے زمین نکل گئی میں نے جس نے کبھی کسی مچھر کو بھی نہیں ما را جو پچھلے کئی سالوں سے دو بئی میں مزدوری کر رہا تھا وہ دہشت گر د ‘میرے اوسان خطا ہو چکے تھے اور میں کسی بہت بڑی مصیبت میں پھنس چکا تھا میں سیدھا سادا انسان مہذب لوگوں کے ساتھ رہا شرافت سے اپنی نو کری کر رہا تھا ایسے اجڈ ظالم جانوروں کے ہتھے چڑھ گیا تھا ڈیرے پر آکر انہوں نے مجھے اتارا اور لا کر ایک کمرے میں لا کر ہا تھوں میں ہتھکڑیاں پہنا کر ہتھکڑیاں چھت سے با ندھ کر چھو ڑ کر چلے گئے کمرے میں میرے سے پہلے بھی تین جوان میری طرح ہی ہتھکڑیوں سے بندھے ہو ئے بے بسی کے عالم میں میری طرف دیکھ رہے تھے اُن کو دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ یہ پو لیس نا کہ نہیں پو لیس ڈاکہ ہے ‘پو لیس ڈکیتی ہے میں جن کو پو لیس کی وردیوں میں محافظ سمجھ رہا تھا وہ محا فظ نہیں بلکہ پو لیس کی وردیوں میں ڈکیت تھے جو سر عام پو لیس کی وردیوں میں اغوا اور ڈکیتی کر رہے تھے جس سب انسپکٹر نے مجھے اغوا کیا تھا وہ جعلی پو لیس آفیسر نہیں تھا بلکہ اصلی پو لیس انسپکٹر تھا اُس نے اپنی ڈیوٹی ناکے پر لگا ئی ہو ئی تھی اُس نا کے سے وہ اپنی پسند کی امیر سواریاں پکڑ کر اُن کو اپنے دوست وڈیروں کے اڈوں پر لے جا کر لو ٹ ما ر کر تا اُن پر ظلم کر تا ‘پیسے نکلوانے کے لیے ظلم و بر بریت کی درد ناک داستا نیں رقم کر تا اِ س تر قی یا فتہ میڈیا کی آزادی کے دور میں وہ بلاخو ف خطر اغوا ڈکیتی جیسے خو فناک جرم سر عام کر رہا تھا۔
اُس کی بے خو فی اور ہٹ دھرمی کا عالم دیکھیں اُس نے اپنی ذاتی جیلیں بنا رکھی تھی وہ امیر انسانوں کو پکڑتا اُن پر دہشت گر دی کا الزام لگا تا پھر اپنی مر ضی کے ڈیروں پر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر تا ان کو درد نا ک سزائیں دے کر خو ف زدہ کر تا اُ ن کے گھر والوں سے پیسے منگواتا یہ ساری با تیں وہاں کمرے میں مو جود قیدیوں نے مجھے بتا ئیں ان بیچاروں نے بتا یا کہ وہ کئی دنوں سے اس کے قیدی ہیں چند گھنٹوں بعد ہی وہ انسپکٹر دوبار ہ آیا ہم سب کی ہتھکڑیاں چھت سے کھولیں اور ہم کو با ہر صحن میں لے آیا جہاں اُس کے بد معاش ساتھی پہلے سے کھڑے تھے انہوں نے ہمیں دیکھتے ہی مارنا شروع کر دیا پھر انہوں نے زبردستی ہما رے کپڑے اتا ر کر ہم سب کو ننگا کر دیا اب انہوں نے ہمیں ڈنڈوں سے مارنا شروع کر دیا پھر ظلم کی انتہا اِسطرح کی کہ ڈنڈوں کے سروں پر کپڑا باند ھ کر اُس کو پٹرول لگا کر ہما رے جسم کے نا زک حصوں کو جلا نا اور بے حر متی شروع کر دی اسطرح وہ ہمیں دہشت اور خو ف میں مبتلا کر نا چاہتے تھے۔
ہما ری چیخ و پکا ر سننے والا کو ئی نہ تھا ہم اُن درندوں کے رحم و کرم پر تھے وہ انتہا ئی بے رحمی سے ہم پر ظلم کرتے اور قہقے لگا رہے تھے ہمیں اچھی طرح ما رنے کے بعد جب وہ تھک گئے تو میں نے پو چھا جنا ب میرا قصور کیا ہے تو وہ بد معاش بو لا تمہا را قصو ر یہ ہے کہ تم نئی کا ر میں کیوں گھوم رہے تھے تمہا رے پاس پیسہ ہے میں نے کہا جنا ب آپ میری کا ر لے لیں میرے سارے پیسے لے لیں لیکن خدا کے لیے ہم پر یہ ظلم نہ کریں تو وہ اپنے کام کی طرف آیا اور کہا تمہا ری گاڑی سے چیک بک ملی ہے تمہارے اکا ئونٹ میں جتنے بھی پیسے ہیں اِس چیک پر بھرو میں جا کر پیسے لوں گا تو تم کو رہا کر دوں گا میں نے فوری طو ر پر اُس چیک پر ساری رقم بھر دی کہ جائو اور جا کر کے لو انسپکٹر نے چیک لیا اور یہ کہہ کر چلا گیا کہ اگر پیسے نہ ملے تو تمہیں جلا کر راکھ کر دوں گا۔