تحریر: سید انور محمود بچے انسانی معاشرے کا ایک اہم جزو ہیں۔معاشرئے کے دیگر افراد کی طرح ان کا بھی ایک اخلاقی مقام اور معاشرتی درجہ ہے۔ بہت سے امور ایسے ہیں جن میں بچوں کو تحفظ درکار ہوتا ہے۔ ریاست، آئین اور قانون جس طرح ہر انسان کے بنیادی حقوق کی پاسداری کرتے ہیں، اسی طرح بچوں کو بھی ان کے حقوق کی ادائیگی و حفاظت کی ضمانت دیتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں چائلڈ لیبر کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کرچکا ہے اور اس کی سب سے بدترین قسم گھریلو مشقت ہے۔ حکومت کے مطابق بچوں سے گھریلو مشقت جبری مشقت کے زمرے میں نہیں آتی چنانچہ اس حوالے سے کوئی ضوابط نہیں اور نہ ہی گھریلو کاموں کے لیے مخصوص اوقات کار متعین ہیں۔ لیکن پاکستان کے آئین کے تحت بچوں سے گھریلو ملازمت کروانا غیر قانونی ہے، سپریم کورٹ بھی اسے غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔ پاکستان کے شہری علاقوں کی ایک بڑی آبادی خاص کر کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں گھریلو کاموں کے لیے بچوں کو ملازم رکھتی ہے، جن میں اکثریت بچیوں کی ہے۔ گذشتہ برس پاکستان 167 ممالک کے گلوبل سلیوری انڈیکس یعنی غلامی کے عالمی اشاریے میں چھٹے سے تیسرے نمبر پر آگیا تھا۔ گلوبل سلیوری انڈیکس ترتیب دینے والے ادارے واک فری فاؤنڈیشن کے مطابق اس وقت پاکستان میں اکیس لاکھ سے زیادہ بچے جبری مشقت پر مجبور ہیں۔
ڈومیسٹک ورکرز یونین کے سیکریٹری مختار اعوان کا کہناہے کہ معاشرتی بے حسی اور معاشی مجبوری کے باعث پاکستان میں کم عمر بچوں سے مشقت کروانا ایک ایسا جرم ہے جس میں خود والدین اعانت جرم کے مرتکب ہیں۔غریب لوگ بے چارے اپنی معاشی مجبوری کی بناء پر اپنے چھوٹے بچوں کو ان امراء کے گھروں میں ملازم رکھواتے ہیں۔امراء اور متمول گھرانوں کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں جینے کا حق صرف ان کو ہے، ان کے نزدیک غرباء و محتاج لوگ جینے کا حق نہیں رکھتے۔ یہ امراء اپنے مال اور طاقت کے نشے میں اتنے دھت ہیں کہ اپنے گھروں میں رکھے ملازمین پر ناجائز سختی کرنا اپنا حق تصور کرتے ہیں۔ یہ اپنے گھروں میں کام کرنے والے چھوٹے بچوں اور بچیوں پر تشدد کرتے ہیں جس کی وجہ سے بعض اوقات یہ بچے معذور ہوجاتے ہیں یا ان کی موت واقعہ ہوجاتی ہے۔یہ ظلم وہ لوگ کررہے ہیں جو قانون سے تو واقف ہیں لیکن پیٹ بھرا ہونے کی وجہ سے فرعون بنے ہوئے ہیں۔کسی اور کا کیا ذکر کرنا جج جس کا کام انصاف کرنا ہے اس کے اپنے گھر میں یہ ظلم ہوا ہے۔ دسمبر 2016 میں اسلام آباد کے رہائش پذیر ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی خان کی اہلیہ نے چھوٹے سے معاملے پر گھر میں کام کرنے والی دس سالہ طیبہ کو تشدد کا نشانہ بنانے کے علاوہ اُس کا ہاتھ بھی جلادیا تھا، ظالم عورت نے دس سالہ طیبہ کو حبس بےجا میں بھی رکھا۔بیگم صاحبہ کی ضمانت ہونے میں دیر نہیں لگی، کمسن ملازمہ کی تشدد زدہ تصاویر اور میڈیکل رپورٹ کے باوجود متعلقہ عدالت نے اس مقدمے میں ایڈیشنل سیشن جج کی اہلیہ کی ضمانت منظور کرلی۔ جج نے اپنے عہدئے کا پورا فائدہ اٹھایا اور غریب طیبہ کے والد کی مجبوری کو شاید چند ہزار روپوں میں خرید لیا، متاثرہ طیبہ کے والد نے عدالت میں ایک بیان حلفی جمع کروایا تھا جس میں اُس کا موقف تھا کہ وہ ایڈیشنل سیشن جج اور اُن کی اہلیہ کو اللہ کے واسطے معاف کرتا ہے، پولیس نےجج راجہ خرم علی خان کی اہلیہ کے خلاف مقدمہ غلط فہمی کی بنیاد پر درج کیا ہے۔ بعد میں سپریم کورٹ بھی سوموٹو ایکشن لیکر اس واقعہ میں شامل ہوئی لیکن نتیجہ انصاف ندارت اور مجرم آزاد۔
پنجاب اسمبلی کی ایک خاتون رکن شاہ جہاں کی بیٹی فوزيہ نے اپنے گھریلو ملازم 16 سالہ اختر علی پر اتنا تشدد کیا کہ چار دن پہلے اس بچے کی موت واقع ہوگئی۔ ملزمہ ایک رکن اسمبلی کی بیٹی ہے اس سے پہلے کہ وہ گرفتار ہوتی اس نےضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرلی۔ جبکہ کمسن اختر علی کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں تصدیق کی گئی ہے کہ اُس پر تشدد ہوا تھا۔ اس واقعہ کا بھی وہی حشر ہوگا جو ماضی میں ہونے والے واقعات کا ہوا ہے۔کم سن گھریلو ملازمین کے ساتھ بدسلوکی میں والدین کی غربت اورغفلت دونوں شامل ہیں، جبکہ ریاست کو اس سلسلے میں جو کردار ادا کرنا چاہیے تھا وہ قطعی ادا نہیں کررہی۔ ہمارا معاشرئے میں میں ظلم کی انتہا یہ ہے کہ ہر بڑا جاگیردار اور وڈیرہ معمولی معمولی کوتاہیوں پر اپنے گھریلو ملازمین پر بہت زیادہ تشدد کرتا ہے۔ ان ظالموں نے اپنی نجی جیلیں اور قید خانے قائم کررکھے ہیں جہاں پر ان معصوم، غریب اور بے کس گھریلو ملازمین پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔
گھریلو ملازم بچوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی روک تھام میں متعلقہ ادارے بری طرح ناکام ہو گئے ہیں۔بچوں سے گھریلو مزدوری کروانا چائلڈ لیبر کی بدترین شکل ہے، اور اس کی وجہ سے بچے تعلیم اور ماں باپ کی شفقت جیسے بنیادی حقوق سے محروم ہوجاتے ہیں۔ یہ بات قابل افسوس ہے کہ حکومت گھروں میں ملازمت کرنے والے بچوں کی تشدد سے ہلاکت پر لواحقین کو امدادی رقوم تو دے دیتی ہے لیکن اس لعنت سے مستقل طور پر چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کرتی۔ جنوری2010سے اب تک گھریلو ملازمین بچوں پر تشدد کے سو سے زیادہ واقعات سامنے آچکے ہیں۔ گذشتہ 7 سال میں مالکان کے ہاتھوں تشدد کا شکار بننے والے بچوں میں سے تقریباً 40 یا اس سے زیادہ کی موت واقع ہوچکی ہیں۔ان افسوسناک واقعات کے 85 فیصدواقعات پنجاب میں ہوئے ہیں، جبکہ گھریلو ملازمین پر تشدد کے تقریباً 80 سے 90 فیصد واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ گھریلو ملازمین بچوں پرتشدد کرنے والے انسانیت کی سوچ سے عاری یہ ظالم نہایت سنگدل ہیں اور پولیس کی زبان بندی بھی ان کیلئےکوئی مشکل نہیں ہے۔ پکڑے بھی جائیں تو صاف بچ جاتے ہیں کیونکہ غریب والدین کو ڈرادھمکا کر صلح نامے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ مقدمہ چلے بھی تو فیصلے میں سالہا سال گزر جاتے ہیں۔
بچوں سے جبری مشقت کے مکمل خاتمے کے اعلانات کے باوجود ابھی تک ملک میں کم عمر گھریلو ملازمین کے ساتھ تشدد کے واقعات عام ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتوں کو کبھی یہ نصیب نہیں ہوتا کہ ان غریب معصوم گھریلو ملازمین پرہونے والےتشدد کےلیے بھی ملکر آواز اٹھایں۔ ایک عرصہ ہوگیا ہےاس ظلم وستم کو جاری رہتے ہوئے، یہ ریاست کی زمہ داری ہے کہ اس ظلم کورکوائےورنہ ایسا نہ ہوکہ ظلم سہنے والے بغاوت پر اتر آیں۔ ظالموں کو ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ
ان اندھروں کا جگرچیر کے نور آئے گا تم ہو فرعون تو موسی بھی ضرور آئے گا