آئی ایم ایف اور مہنگائی

IMF

IMF

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
ہم عملاً روز مرہ زندگی میں دیکھتے ہیں کہ وہ پرائیویٹ ملازمین، مزارعین ،کاشتکار وغیرہ جو مالکان کے قرض دھندہ ہوتے ہیں وہ جب قرض ادا نہیں کر سکتے تو متعلقہ ظالم بھیڑیے نما جاگیرداربد کردار وڈیرے، تمندار ،خان وغیرہ اکثر اوقات ان کی عزتوں سے کھیلتے رہتے ہیں تقریباً سارا ہی خاندان بیوی بچوں سمیت کو لہو کے بیل کی طرح ان کی تابعداریاں کرتے ہیں مگر اف تک نہیں کرسکتے اسی طرح بڑے پیمانے پر ہم آئی ایم ایف اور سامراجیوں کے اربوں روپوں کے قرض دہندہ ہیں اور وہ جس قیمت کا بھی پٹرول یا بجلی وغیرہ کا حکم کریں ہم ادنیٰ غلاموں کی طرح اس کی تعمیل کرنے کے پابند ہیں۔

ہم قطعاً چوں چراں نہیں کرسکتے جب کہ یہ بھی واضح ہے کہ پٹرول کی قیمتیں بڑھنے سے فوراً دیگر تمام ضروریات زندگی اور خوردنی اشیاء کی قیمتیں بڑھنے لگتی ہیں جس کا سارا ملبہ ان غرباء دیہاڑی داروں پر آن پڑتا ہے جو دن رات محنت مشقت کے بعد نان جویں کو بھی ترستے ہیںغربت کے خاتمے اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا مہیا کرناآئین پاکستان حکمرانوں کو پابند بناتا ہے اسطرح کوئی بھوکا ننگا بیروزگار نہیں رہ سکتا مگر یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے دنیا کے پلید ترین کافرانہ نظام سود کے تحت چلنے والا ہمارا ملک بیرونی قرضوں میں اسطرح جکڑا جا چکا ہے کہ الامان و الحفیظ۔ملک کی65فیصد سے زائد آبادی غربت کی لکیر کے نیچے گزر بسر کرنے پر مجبور ہے کئی گھرانے تو ایک وقت کھانا ہی نہیں کھا سکتے مگر صنعتکار حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔وہ بڑی شاہراہوں اور نج ٹرنیوں ،یلو کیب سکیموں وغیرہ پر کھربوں اڑا رہے ہیں حالانکہ” ٹڈ نہ پیاں روٹیاں تے سبھے گلاںچوٹھیاں “کے مصداق ظالم پیٹ ہر وقت غذا مانگتا ہے جو کہ ناپید ہوچلی۔اب آئی ایم ایف جو کہ نعوذ باللہ ہمارا اَن داتا بنا ہوا ہے۔

عوام کومزید مہنگائی کی چکیوں میں پیس ڈالنا چاہتا ہے اور حکم صادر کردیا ہے کہ پٹرول اور بجلی کی قیمتیں بڑھائی جائیں ان پر سبسڈی ختم کی جائے صوبائی حکومتیں مزید ٹیکس عائد کریں ۔اسطرح پاکستانی فلاحی مملکت کا خواب کیا دیکھیں گے روٹی ووٹی کے چکر سے ہی نہ نکل سکیں گے کسانوں کی محنت سے تیار کردہ فصلوں کو ویسے ہی آڑھتی اور نودولتیے سود خور، بد کردار افراداونے پونے داموں سے چھین لیتے ہیںاور وہ ٹک ٹک دیدم کی کیفیت میں دوبارہ مہنگائی کے جن کے نیچے آکر کچلا جاتا ہے سود خور سرمایہ دار دور کھڑے ہنستے اور تماشہ دیکھتے ہیں۔بیرونی قرضوں کی غلامی سے نجات ممکن ہی نہیں کہ اگر ہم ایک کروڑ قرض لیں تو پچاس لاکھ سے زائد توپہلے سابقہ سود میں ہی کٹ جاتے ہیںبس لے دے کربیرونی قرضوں اور خود ہی نافذ کردہ ظلم سے نجات کا ایک ہی راستہ ہے کہ پسماندہ ،پسے ہوئے غریب طبقات کے بھوکوں مرتے ،خود کشیاں کرتے ،خود سوزیاں کرنے والے افراداکٹھے ہوں اور اللہ اکبر اللہ اکبر کے نعرے لگاتے اور سیدی مرشدی یا نبی ۖیا نبی ۖکا ورد کرتے ہوئے جوق در جوق نکلیں اور اس بوسیدہ نظام کے علمبردار وڈیروں جاگیرداروں اور نودولتیوں کو ملکی سیاست سے بذریعہ ووٹ آئوٹ کردیں اور باکردار باصلاحیت افراد کو منتخب کرکے سودی کافرانہ نظام کے بخیے ادھیڑ کر اسلامی نظام معیشت نافذ کردیں اسلامی بنک کاری ہوجس سے مہنگائی غربت بیروزگاری دہشت گردی کرپشن کے بت پاش پاش ہو جائیں۔

مسلسل اللہ اکبر کی تحریک کو عملاً چلا کرمنتخب حکومت تمام مدفون قیمتی دھاتوں سونا پلاٹینم ،چاندی ،لوہا ،تانبا وغیرہ کو ہنگامی بنیادوں پر پہاڑوں اور زمینوں کی گہرائیوں سے نکال کر بین الاقوامی مارکیٹوں میں فروخت کے زریعے تمام بیرونی سامراجی ممالک اور ان کے حواری و کارندوں کے قرضے ان کے منہ پر دے ماریں تو ہی سودی قرضوں سے نجات مل سکتی ہے اور اس گھن چکر سے نجات پاسکیں گے وگرنہ غریب غریب تر اور امیر طبقہ امیر تر ہوتا چلا جارہا ہے ۔بھوک مرتے شخص کو کوئی بھی خواہ دہشت گردوں کا ٹولہ ہی کیوں نہ ہو آسانی سے خرید کر اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرسکتا ہے غر بت مہنگائی مکائوتودہشت گردی دور بھاگے گی اور پاکستان اسلامی فلاحی مملکت اپنی خالص ترین صورت میں بن جائے گا۔اور کرپٹ حکمرانوں کا بھی بستر بوریا خود ہی گول ہو جائے گا اوررہ جائے گا صرف نام اللہ کا۔

Dr Mian Ihsan Bari

Dr Mian Ihsan Bari

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری