بدین(عمران عباس) سوا دو ارب کی لاگت سے تیار ہونے والی ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر اسپتال سات سال گذرنے کے باوجود بھی مکمل نا ہو سکی، محکمہ صحت سندھ کے صوبائی وزیر اور سیکریٹری نے بدین پہنچ کر اسپتال میں استعمال ہونے والے ناقص مٹیرل کا نوٹس لے لیا۔
بدین شہر میں جدید ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر اسپتال جس کا کام سال 2011 میں شروع کیا گیا تھا اور جس پر اب تک سوا دو ارب کی لاگت آچکی ہےاور سات سال گزرجانے کے باوجود بھی اسپتال کا کام مکمل نہیں کیا جاسکا ہے ، تیس سو بستروں پر مشتمل اسپتال کے کمروں میں چھتوں سے جگہ جگہ بارش کا پانی ٹپکنے لگا ہے، صحت کے صوبائی وزیر ڈاکٹر سکندر میندھرو اور سیکریٹری ہیلتھ فضل اللہ پیچواور انڈس اسپتال کے سربراہان نے گزشتہ روز اسپتال کا دورا کیا اور مستقبل میں اسپتال میں کیا کیا سہولیات فراہم کی جائیں گی اس پر بھی بریفنگ لی اور اسپتال میں استعمال ہونے والے ناقص مٹیریل کا بھی نوٹس لیا۔
صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر سکندر میندھرو نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ دنوں میں ایک عورت کے دو بچے اسپتال میں فوت ہونے کا معاملہ کچھ الگ ہے اور جس طرح سے اس کو پیش کیا گیا ہے وہ غلط ہے، انہو ں نے کہا کہ ہم میڈیا پر آنے والی باتوں کو سنجیدگی سے دیکھتے ہیں اور انکوائری کرنے پر پتہ چلا کہ زچگی کے لیئے لائی جانے والی عورت کے پیٹ میں ہی بچے فوت ہوچکے تھے، انہوں نے مزید کہا کہ چھوٹے چھوٹے مسائل ہوتے رہتے ہیں جنہیں فوری حل کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں جبکہ ڈایالاسس میں کام کرنے والے ملازمین کو جلد ہی مستقل کیا جائے گا اور کسی کو بھی ملازمت سے فارغ نہیں کیا جائے گا، سیکریٹری ہیلتھ فضل اللہ پیچو کا کہنا تھا کہ 600 ڈاکٹروں کو جلد ہی بھرتی کیا جائے گا جبکہ عدالت میں کچھ معاملات چل رہے ہیں وہ بھی جلد ہی حل ہوجائیں گے، انہو ں نے مزید کہا کہ کچھ شکایات ملیں ہیں کہ انڈس انتظامیہ اسپتال میں کوریج کے لیئے میڈیا کو روک لیتی ہے جو ایک غلط عمل ہے میڈیا کو اپنے کام کی مکمل اجازت ہے اور اس وقت آپ ہمارے ساتھ ہیں آپ کو کوئی بھی نہیں روکے گا، بدین کے شہر نندو میں موجود اسپتال کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ ایک جدید اسپتال ہے جہاں پر جلد ہی سب سہولیات فراہم کی جائیں گی، اس موقع پر ڈی ایچ او ڈاکٹر محبوب خواجہ نے صوبائی وزیر اور سیکریٹری کو اسپتال کے بارے میں مکمل بریفنگ دی، جبکہ اس موقع پر ڈی سی بدین شوکت حسین جوکھیو، انڈس کے سربراہ ڈاکٹر باری، ڈاکٹر اختر، سول سرجن ڈاکٹر محمد رحیم راہموں اور دیگر بھی موجود تھے۔۔