لہو میں جِسم نہلانا پڑے گا ابھی تو خود کو منوانا پڑے گا ابھی ماحول ہے وحشت کی زد میں ابھی اِس دِل کو سمجھانا پڑے گا اکیلے گھر کے سناٹے سے ڈر کے سرِ بازار ہی آنا پڑے گا پرائے بام و در کو تکتے تکتے اِنہی گلیوں میں پھِر آنا پڑے گا بھرے بازار میں دشمن کے آگے مجھے بھی ہاتھ پھیلانا پڑے گا ہوا کے ساتھ خوشبو کے سفر میں کوئی تو گیت اب گانا پڑے گا یہی پھینکا ہے میرے چارہ گر نے یہی پتھر مجھے کھانا پڑے گا صلیب و دار کے رستوں میں ساحل دلِ مضطر کو بہلانا پڑے گا