تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری ہم مسلمان چونکہ ہندوئوں کے ساتھ متحد بھارت میں کئی صدیوں سے اکٹھے رہے ہیں اس لیے ان کی مذہبی روایات نے ہم پر گہرا اثر ڈالا ہے مثلاً کوا ہمارے دالان کی دیوار پر آکر بیٹھ کر کاں کاں کر رہا ہو تو سمجھا جائے گا کوئی مہمان آرہا ہے ،آٹا گوندھتے ہوئے آٹے کا کوئی ٹکڑا ہمارے ہاتھ یا انگلیوں سے باہر گر پڑے تو اسے بھی مہمان کی آمد سمجھتے ہیں کالی بلی آگے سے راستہ کاٹ جائے تو اسے نحوست سمجھا جاتا ہے اور گاڑی یا سائیکل کے آگے سے گزر جائے تو اس سفر کو خطر ناک سمجھنے لگتے ہیںدائیں جوتی الٹی ہوجائے تو باہر جانا مناسب خیال نہیں کیا جاتا اور بائیں جوتا الٹا ہو جائے تو سمجھا جاتا ہے کہ ہمیں کہیں دور دراز کا سفر کرنا ہو گا وغیرہ وغیرہ اسی طرح ہمارے ہاں ان کے مذہبی الفاظ بھی مستعمل ہیں جیسے اسلام وعلیکم کونمستے کہناماں کو ماتا کے نام سے پکارنا جس طرح وہ بت پرستیاں کرتے ہیں حتیٰ کہ سورج چاند وغیرہ کو بھی دیوتا یعنی خدا مانتے ہیںاسی طرح ہم بھی بھلے چنگے ہوتے ہوئے کسی کی قبر کے آگے سجدہ ریز ہونے ا ور کسی کو نیکو کار سمجھ کراس کے ہر عمل کی پیروی کو اپنے مذہب کا حصہ بنا ڈالتے ہیں ۔ہندوستانی فلموں گانوں اور ڈراموں میں تو ویسے ہی پاکستانی آرٹسٹوں کو نیچا دکھا یا ہوا ہے کیونکہ بھارتیوں نے ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کرڈالا ہے اس لیے پاکستانی مسلمان ہر طرح سے ہندوئوں کو اپنا دشمن خیال کرتے ہیں اور ان سے ہمہ قسم لین دین کرتے ہوئے بھی شرم محسوس کرتے ہیں۔
پچھلے سال 29اکتوبر کو پیمرا نے پاکستانی چینلوں پر بھارتی گانوں ،فلموں ڈراموں پر پابندی لگادی تھی جسے18جولائی2017کولاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے ختم کرڈالا ہے اس کے محرکات کیا ہیںمعلوم نہیںاور اس کے مضمرات جو ہوں گے وہ ہم سبھی کو پتہ ہیںاور اس سے ہم غافل نہیں رہ سکتے اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے مگر جیسے کو تیسا بھی ضروری ہوتا ہے بھارتیوں نے عرصہ دراز سے ہمارے فنکاروں کی طرف سے بھارت میں کسی بھی قسم کے شو کرنے پر سخت پابندی عائد کر رکھی ہے حتیٰ کہ قوالی تک بھی منع کر رکھی ہے بھارت کے اندر موجود تمام مسلمان فنکار سخت بیروزگاری کے عالم میں ہیں اگر انڈیا انہیں اجازت دیتا جو کہ اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت سمجھتا ہے تو اور بات تھی مگر وہاں مکمل پابندی جاری ہے ہم بھی خود مختار آزاد ملک ہیںاور اچھے ہمسایوں کی طرح رہنا بھی چاہتے ہیںمگر وہ اپنے آپ کو سیکولر ملک کہلاتے ہوئے بھی تحریک چلائے ہوئے ہیں کہ ہندوستان میں ہندو بن کر رہنا ہوگا۔
پیمرا کی طرف سے پابندیوں کو ہٹایا جانا محیر العقول بات محسوس ہوتی ہے ہمارے بامعنی اور بامقصد پروگرام بھی تو بھارت میں ٹیلی کاسٹ ہونے چاہیں ہمیں اپنے ملک کی انڈسٹری کو فروغ دینا چاہیے اپنی سوسائٹی کے روزمرہ مسائل اور زندگی پر پروگراموں کی ترویج ہونی چاہیے۔تاکہ ہمارے معاشرے میں دینی اقدار کی سربلندی ہواگر ہماری نئی نسل یہود ونصاریٰ اور ہندو بنیوں کی نقالی کرتی رہی تو ہمیں بیرونی سامراجی تہذیبیں اپنے خونی پنجوں میں جکڑ لیں گی حضرت عیسیٰ آسمان پر اٹھائے گئے اور مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق قیامت سے پہلے زمین پر اتارے جائیں گے مگر بعض کے نزدیک مسلوب کیا گیا اور انہی کی یاد میں انہوں نے گلے میں ٹائی باندھنا شروع کردی دوسری روایات کے مطابق انسانی اعضائے تناسل کیونکہ آگے نسلوں کے بڑھانے کا موجب ہوتا ہے اسی کو دیوتا اوتار سمجھ لیا جیسے کئی چاند سورج کی پرستش بھی کرتے ہیںاسلیے اس کی پوجا شروع ہوگئی اور مرے ہوئے افراد کے اعضائے تناسل کاٹ کر اور انھیں خشک کرکے دوائی وغیرہ لگا کر گلوں میں لٹکانا شروع کردیا جس نے جتنے زیادہ اعضائے تناسل گلے میں لٹکائے ہوتے تھے وہ اتنا ہی بڑا”بزرگ اور برگزیدہ شخصیت ” قرار پاتا جنگ عظیم میں کوئی ناکارہ توپ کسی علاقہ میں پڑی رہ گئی تو خواتین نے اس پر سوار ہو کردعائیں شروع کردیںتاکہ بچہ پیدا ہو سکے اور اسے ہی اوتار اور سب کام کرنے والی طاقت سمجھ لیا لیکن جب جدید دور آتا گیا تو پھر اسی عضائے تناسل کی شکل سے منسوب ٹائی نما کپڑا گلوں میں باندھنا شروع کردیا اب یہ جدید دور کی تہذیب کا حصہ ہے اور ہم مسلمان بھی اسے گلے میں ٹانگے اور باندھے بغیر نہیں رہ سکتے۔
اس طرح اسلامی تہذیب پر ہر طرف سے ثقافتی معاشرتی یلغاروں کا حملہ ہے غرناطہ فتح نہیں ہورہا تھا یہود و نصاریٰ نے درجنوں حملے کیے مگر سکہ بند اور صحیح العقیدہ مسلمان مفتوح نہ ہوسکے ان کے انٹیلی جنس اداروں نے اندر گھس کر تحقیق کی تو پتا چلا کہ جب تک انہیں راگ رنگ ،عیاشیوں اور نشوں میں مبتلا نہیں کیا جائے گا اس علاقہ کے لوگوںکو مسخر نہیں کیا جاسکتا۔کفار ،سامراجیوں یہودیوں نے خوبصورت عورتوں اور شراب و دیگر مفت نشہ آور اشیاء کی بھر مار کردی مسلمان ان کے رسیاہوگئے اور افواج بھی ایسی لتوں کا شکار ہوگئیں اور آسانی سے علاقے فتح ہو گئے۔
اسی طرح ہمارے ہاں بھی نشوں عیاشیوں راگ و رنگ کی محفلوں ،ڈانس وغیر ہ کی بہتات ہوگئی اور ہم بھارتی ویہودی ثقافتوں اور معاشرتوں کو روک نہ سکے تو ہمارا حشر بھی مشرقی پاکستان کی طرح خدا نخواستہ اور کیا ہوگا؟ملک کی بقا فوجوں سے نہیں بلکہ تمام آبادی کی اوپر بیان کردہ لغویات سے جان چھڑوانے اور اسلامی معاشرتی اقدار کی ترویج و اشاعت اورآپس میں بھائی چارے میںہی ہے جس سے لسانیت ،فرقہ واریت، دہشت گردی ختم ہوکرہم آپس میں شیر وشکر ہوکر اسلامی اقدار کے مطابق ایک قوم بن جائیں گے۔خلفائے راشدین کے دور میں تو بیسیوں ٹانکے لگے کپڑے پہنے خلفاء نے آدھی سے زائد دنیا فتح کرلی اور ہم دنیا کی پانچویں بڑی فوج رکھنے کے باوجود آج اغیار یہود د نصاریٰ سامراجیوں کی نقالیاں کرتے ہوئے اس حالت کو پہنچے ہوئے ہیں حتیٰ کہ باقی ماندہ آدھے پاکستان کو بھی چہار طرف سے کفار نے گھیر رکھا ہے۔خدا خیر کرے۔