تحریر: علی عبداللہ چند دن پہلے امریکی سیکورٹی کنٹریکٹر ریمنڈ ڈیوس کی کتاب “دی کنٹریکٹر” پڑھنے کا اتفاق ہوا ۔ اس کتاب میں ریمنڈ ڈیوس نے پاکستان میں آنے اور لاہور میں پیش آنے والے واقعے پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے جس میں دو نوجوانوں کو بیچ سڑک پر اس نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا ۔ اس کتاب کے ابتدائیے کے مطابق 2011 میں ریمنڈ ڈیوس کے پاکستانی جیل میں قید اور پھر واپس امریکہ جانے کے متعلق بہت غلط بیانی سے کام لیا جاتا رہا ہے ۔ یہ کتاب اس واقعے کے مرکزی کردار کی زبانی تمام حقائق سچائی سے سامنے لاتی ہے ۔ ٹائم میگزین نے اس کتاب پر رائے دیتے ہوئے لکھا ” پاکستان؛ کیسے شریعہ عدالت نے امریکی ریمنڈ ڈیوس کو رہائی دلوائی” اس کتاب کے پبلیشرز کے مطابق یہ کتاب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک امریکی کی جانب سے ادا کی جانے والی قیمت کی عکاسی کرتی ہے ۔ کتاب کے ابتدائی ابواب کا مختصر اور غیر سیاسی جائزہ پیش خدمت ہے ۔
دی کنٹریکٹر ابتدا سے پڑھنے پر قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ اس میں لفاظی اور کہانی نویسی زیادہ ہے جبکہ حقیقی واقعات کو چھپے ڈھکے انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔ کیس سے متعلق وضاحت سے زیادہ پاکستانی ماحول، پاکستانی عوام اور اداروں پر طنزیہ انداز میں بات کی گئی ہے ۔ ریمنڈ ڈیوس کے مطابق پاکستان افغانستان کی طرح حالت جنگ میں نہیں ہے لیکن اس کے باوجود امریکی سفارتی عملے اور کاروباری شخصیات پر کئی درجن حملے ہو چکے ہیں ۔ لاہور سمیت ملک کے اکثر شہروں میں دہشت گرد محفوظ پناہ گاہوں میں موجود ہیں اور لاہور جیسے شہر میں بھی آپ پر کہیں سے بھی حملہ کیا جا سکتا ہے ۔ لاہور ایک بہترین شہر ہے جو اپنے اندر ایک قدیم تاریخ سموئے ہوئے ہے لیکن بہرحال دہشت گردی کا خطرہ ہمہ وقت موجود ہے ۔
ریمنڈ ڈیوس کے مطابق ان کی ڈیوٹی تمام ایسے امریکیوں کی حفاظت ہوتی ہے جو امریکہ سے باہر مختلف ممالک میں مختلف خدمات سر انجام دیتے ہیں ۔ یہ لوگ نہایت ذہین ہوتے ہیں لیکن وہ خطرے کو بھانپ کر اس کے مطابق عمل درآمد کرنے میں ماہر نہیں ہوتے ۔ لہٰذا سیکورٹی کنٹریکٹرز اس سلسلے میں ان کی حفاظت پر مامور ہوتے ہیں ۔ اس لیے ریمنڈ ڈیوس بھی بلیک واٹر کے ساتھ منسلک ہونے کی وجہ سے لاہور موجود تھے اور ایک اہم رکن کی آمد سے پہلے وہ تمام راستوں کو چیک کر رہے تھے کہ کہاں کہاں سے حملہ ہو سکتا ہے ، کن ٹریفک سنگنلز پر خطرہ موجود ہے اور کن عمارتوں سے کسی بھی حملے کی توقع کی جا سکتی ہے ۔ اسی اثنائ میں وہ مزنگ چوک پر اشارے پر رکے تو ارگرد ٹریفک کا ہجوم تھا ۔ اچانک ان کے آگے دو موٹر سائیکل سوار کھڑے ہوئے اور ان میں سے ایک نے روسی ساختہ پستول سے ان پر فائر کرنے کی کوشش کہ لیکن وہ خطرہ بھانپ چکے تھے اور پرفیشنل ہونے کے ناطے ان سے زیادہ تیزی سے اپنا پستول نکال کر ان پر گولیاں چلائیں جس سے دونوں موقعہ پر جاں بحق ہو گئے ۔ اس کے بعد انہوں نے ثبوت کے طور پر ہلاک ہونے والوں کی تصاویر بھی لیں تاکہ ثبوت موجود رہے ۔
ریمنڈ ڈیوس کے مطابق ایک مخصوص تنظیم کو بلیک واٹر کے کنٹریکٹرز کو اغوا یا قتل کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا جس کی ان کو بھی رپورٹ دی گئی تھی ۔ اب وہ نہیں جانتے کہ یہ دو لوگ اسی تنظیم کے تھے یا پھر ڈکیٹ ۔ لیکن انہوں نے یہ مکمل اپنے دفاع کے لیے کیا تھا جس کا انہیں کسی قسم کا کوئی افسوس نہیں ہے ۔ اس سے آگے ریمنڈ ڈیوس نے واقعے کے فوری بعد کی منظر کشی کی ہے کہ لوگ وقتی طور پر پرسکون تھے لیکن لگتا تھا کہ وہ کسی وقت بھی طیش میں آ سکتے ہیں جس بنا پر انہوں نے وہاں سے جلد از جلد امریکی قونصلیٹ کی جانب جانا چاہا ۔ لیکن رش کی وجہ سے وہ ایسا نہ کر سکے ۔
مصنف نے لکھا ہے کہ پولیس عام گاڑیوں کی نسبت سفارتی پلیٹ نمبر والی گاڑیوں کو زیادہ روکتی ہے اور عملے کو زدوکوب بھی کرتی ہے ۔ چیک پوسٹ پر پولیس ایسی گاڑیوں کو روک کر اندر جھانکنے کی بھی کوشش کرتی ہے اور منع کرنے پر گھنٹوں گھنٹوں ریجنل سیکورٹی آفیسر کو بلانے کے بہانے سڑک کنارے انتظار کرواتی ہے ۔ پولیس کا یہ حال ہے کہ ایک دفعہ ایک بوڑھی عورت جو کہ امریکی قونصلیٹ میں ریڈیو مانیٹرنگ پر مقرر تھی کو جاسوسہ قرار دے کر گرفتار کر لیا اور الزام لگایا کہ اس کے پاس کلاشنکوف اور جاسوسی کے آلات برآمد ہوئے ہیں ۔ بعد ازاں تحقیق کے بعد معلوم ہوا کلاشنکوف کا تو وجود ہی نہیں تھا جبکہ جاسوسی کے آلات کی جگہ ڈیجیٹل کیمرہ تھا ۔ ریمنڈ ڈیوس نے لاہور کی سڑکوں پر موٹر سائیکلوں کا بھی خصوصی ذکر کیا ہے ۔ ان کے مطابق موٹر سائیکل سواروں کے لیے صرف ایک ہی قانون ہے کہ وہ ہیلمٹ پہنیں اور اس کے بعد چاہے وہ سات سات لوگ ایک ہی موٹر سائیکل پر سوار ہوں یا پوری گاڑی کی ونڈ شیلڈ اٹھا کر سڑک پر آ جائیں کوئی نہیں روکے گا ۔
ریمنڈ ڈیوس نے اپنی پروفیشنل ٹریننگ اور اپنی شوٹنگ کی صلاحیتوں کو بھی فخریہ انداز میں پیش کیا ہے ۔ خود نمائی کا یہ انداز اکثر جگہوں پر آپکو ملے گا ۔ جس میں عراق اور افغانستان میں بہادری کے قصے بھی شامل ہیں اور پاکستان میں دو نوجوانوں کو ہلاک کرنے کا بہادرانہ انداز میں قصہ تو موجود ہے ہی۔ کتاب کے ابتدائی ابواب پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ کتاب کسی قابل ذکر حقائق پر مبنی ہونے سے زیادہ انگریزی جنگی اور جاسوی فلم کی سٹوری ہے جس میں جگہ جگہ سسپنس اور سنسنی خیز انداز بیان اپنایا گیا ہے ۔ بعض جگہوں پر قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ یہ واقعہ جھوٹ پر مبنی ہونے کا امکان زیادہ ہے ۔سیاسی وجوہات ایک جگہ رکھ کر غور کریں تو بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ اس کتاب کے ذریعے عوام کو اپنے ہی اداروں اور ملکی قوانین کے بارے گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اصل واقعے کو افسانوی انداز دے کر حقیقت سے منہ موڑا گیا ہے ۔