لاہور (جیوڈیسک) لاہور کی کوٹ لکھپت سبزی منڈی میں پیر کو ہونے والے مبینہ خود کش حملے میں ہلاکتوں کی تعداد 26 ہوگئی ہے جب کہ تحقیقات میں تاحال کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔
پولیس حکام کے مطابق دھماکے کی جیو فینسنگ مکمل کر لی گئی ہے لیکن پولیس کو الیکٹرانک شواہد اکٹھے کرنے میں تاحال کامیابی نہیں ہوسکی۔
پنجاب فرانزک ایجنسی نے بم دھماکے کے فزیکل شواہد اکٹھے کر لیے ہیں جس کے بعد جائے وقوعہ کو دھو دیا گیا ہے۔
ڈی آئی جی آپریشن لاہور ڈاکٹر حیدر اشرف نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ دھماکے کے الیکٹرانک شواہد ملنے میں دشواری کا سامنا ہے جس کے لیے تا حال کوششیں کی جا رہی ہیں۔
ڈی آئی جی آپریشن کے مطابق دھماکے کے بعد شہر کے مختلف حصوں میں سرچ آپریشن کیا گیا جس کے نتیجے میں متعدد مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے لیکن ان کے بقول تا حال پولیس کو کوئی اہم کامیابی نہیں مل سکی ہے۔
گزشتہ روز ہونے والے دھماکے کا ایک زخمی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہو گیا ہے جس کے بعد ہلاکتوں کی تعداد 26 ہوگئی ہے۔
پنجاب کے وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں 26 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی ہے۔
وزیرِ صحت نے بتایا کہ دھماکے میں 68 افراد زخمی ہوئے تھے جن میں سے 52 لاہور کے مختلف اسپتالوں میں زیر علاج ہیں، جبکہ 16 افراد کو طبی امداد کے بعد اسپتالوں سے فارغ کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ زیرِ علاج افراد میں سے 13 زخمی انتہائی نگہداشت وارڈ میں ہیں۔
لاہور دھماکے کے بارے میں پنجاب کی قانون ساز اسمبلی میں ارکان نے دو مذمتی قراردادیں جبکہ ایک تحریک التوا بھی جمع کرادی ہے۔
حزبِ اختلاف کی جانب سے جمع کرائی جانے والی مذمتی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ حکومت پنجاب نے اربوں روپے کی لاگت سے ‘سیف سٹی’ منصوبہ شروع کیا تھا لیکن دھماکے والی جگہ پر سی سی ٹی وی کیمروں کا کام نہ کرنا باعثِ تشویش ہے۔