تحریر : حنظلہ عماد،ایم فل۔پنجاب یونیورسٹی پنجاب بھر کے تمام بورڈز نے میٹرک کے نتائج کا علان کر دیا ہے۔ اخبار میں جگہ حاصل کرنے میں وہ طلبا کامیاب رہے ہیں جو پوزیشن ہولڈر تھے یا غیر معمولی نمبروں سے کامیاب ہوئے۔ ان طلبا کی بنیاد پر اگلا پورا سال سکول اور اکیڈمیاں اپنی اشتہاری مہم چلائیں گی اور نئے داخلوں کے لیے والدین کو رجھائیں گی۔یوں اس اشتہاری مہم سے دلبرداشتہ ہو کر بہت سے ایسے طلبا منفی اقدامات پر بھی آمادہ ہوں گے جو ناکام رہے یا اپنے والدین کی توقعات پر پورا اترنے میں کامیاب نہ رہے۔ ان منفی اقدامات میں گھر سے بھاگنے سے لے کرخود کشی تک کے انتہائی اقدام بھی شامل ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہر سال میٹرک کے نتیجے کے بعد ایسی بہت سی خبریں سننے کو ملتی ہیں ۔یوں نمبروں کی اس بے معنی دوڑ میں ہمارے بہت سے ذہین طلبا بھی جو اوسط نمبر حاصل کرتے ہیں یا کسی قدر کم نمبروں سے پاس ہوتے ہیں وہ حوصلہ ہار بیٹھتے ہیں اور تعلیم کو خیر باد کہتے ہیں۔تعلیم کو خیر باد کہنے والے ان نوجوانوں کی اکثریت بے روزگاری سے تنگ آکر بعد ازاں سماج دشمن عناصر کے ہتھے چڑھتی ہے۔اس صورتحال کا ہر سال ہم سامنا کرتے ہیں مگر بد قسمتی سے اس سے نبٹنے کے لیے کوئی جامع حکمت عملی ترتیب نہیں دی جاتی ہے۔ ذیل میں کچھ گزارشات والدین اور ان طلبا کے نام پیش کی جاتی ہیں جومیٹرک میں اوسط یا اس سے کم نمبر حاصل کر پائے ہیں۔
پہلی بات یہ ذہن میں رکھیں کہ زیادہ نمبر ہمیشہ کامیابی کی ضمانت نہیں ہوتے۔ صرف امتیازی نمبروں سے پاس ہونے والا ہی معاشرے میں باعزت مقام حاصل نہیں کرتا بلکہ کم یا اوسط نمبر حاصل کرنے والے افراد بھی معاشرے میں اچھا مقام حاصل کرتے ہیں بلکہ بعض اوقات نسبتاً بہتر مقام تک پہنچنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ دنیا میں نظر دوڑائیں ، ایسے بہت سے افراد اس وقت دنیا میں موجود ہیں جنہیں ان کے تعلیمی اداروں سے نکال دیا گیا تھا یا وہ اپنے امتحانات میں کو ئی قابل ذکر کارکردگی کے حامل نہ تھے مگر وہ اپنی محنت سے نہ صرف دنیا بھر میں مقبول ہوئے بلکہ آج دنیا کے بہت سے لوگ ان کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔
مشہور زمانہ کمپنی ایپل کے بانی سٹیو جابز کو ان کے تعلیمی ادارے سے نکال دیا گیا تھا۔ مگر انہوں نے ہمت نہ ہاری اور اپنی کوشش جاری رکھی ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا کو ٹچ ٹیکنالوجی کا تحفہ دینے میں کامیاب رہے۔ آج ہم میں سے بہت سے افراد اور طلبا سمارٹ فون اور ٹچ سکرین کے دیوانے ہیں مگر یاد رکھیں کہ یہ ایسے شخص کی ایجادہے کہ جو کسی قابل ذکر تعلیمی ریکارڈ کا حامل نہ تھا۔ اسی مانند مائیکرو سافٹ کمپنی کے بانی بل گیٹس بھی اپنی تعلیم کے دوران کسی بھی قسم کی قابل ذکر کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے تھے مگر ان کی کمپنی مائیکروسوفٹ نے انہیں دنیا بھر میں شہرت دلا دی۔ ان مثالوں کا ہر گز مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ پڑھنا چھوڑ دیں یا تعلیم پر توجہ نہ دیں بلکہ ان کا مقصد ان طلبا کی حوصلہ افزائی کرنا ہے جو امتحانات میں بہت نمایاں کارکردگی دکھانے میں ناکام رہتے ہیں۔ والدین بھی اس نکتے کو سمجھیں کہ صرف بہت زیادہ نمبر حاصل کرنا ہی کامیابی نہیں ہے۔عین امکان ہے کہ آپ کے بچے کی دلچسپی کسی کھیل میں ہو اور وہ اس میں حصہ لے کر بہتر انداز میں آپ کا اور ملک و قوم کا نام روشن کر سکتا ہو۔اسی مانند یہ بھی ممکن ہے کہ جس تعلیمی شعبے میں اسے پڑھایا جارہا ہو اس کی دلچسپی اس میں نہ ہو بلکہ وہ کسی اور شعبے میں مہارت حاصل کرنا چاہتا ہو ایسے طالب علم کو بھی بجائے ڈانٹنے کے اس کی مرضی کے شعبے میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کرنا چاہیے۔
دوسری بات یہ کہ صرف زیادہ نمبر حاصل کرنے والا ہی مستقبل میں اچھی پوسٹ پر براجمان نہیں ہوگا بلکہ کم اور اوسط نمبر حاصل کرنے والا طالب علم بھی اگر درست راہ کو اختیار کرے تو وہ اچھے نمبر والے طالب علم سے آگے بڑھنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں والدین اس لیے بھی بچوں کے بہت زیادہ نمبروں کے متمنی ہوتے ہیں کہ وہ انہیں میڈیکل یا انجنئیرنگ میں داخلہ دلوانا چاہتے ہیں۔ اب ان دونوں شعبوں میں ہی داخلہ حاصل کرنے کے لیے نمبر بہت زیادہ ہونا ضروری ہیں۔ مگر یاد رکھیں کہ یہ دونوں شعبے ہی صرف معاشرے میںباعزت مقام حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں ہیں۔ ان کے علاوہ بھی متعدد شعبہ جات موجود ہیں جن کے ذریعے آپ اس معاشرے میں نہ صرف باعزت مقام حاصل کر سکتے ہیں بلکہ ملک و قوم کی بہترین انداز میں خدمت بھی کر سکتے ہیں۔اس کو بھی مثال کے طور پر یوں سمجھ لیں کہ اگر کسی طالب علم کے 60،70 فیصد نمبر ہیں یا اس بھی کم ہیں اور وہ انٹر میں ایف ایس سی یا سائنس کے دیگر مضامین پڑھنے میں دلچسپی نہیں رکھتا ہے تو وہ آرٹس کے ساتھ ایف اے کر سکتا ہے ۔ بعد ازاں سوشل سائینسز کے بہت سے شعبہ جات میں گریجوایشن کی جاسکتی ہے ۔ان میں قانون ،ابلاغیات، سیاسیات، سماجیات،انٹر نیشنل ریلیشنز،ایجوکیشن اور اس مانند دیگر بہت سے شعبہ جات شامل ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک میں کی جانے والی گریجوایشن ایک باعزت مقام کو حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وکالت جیسا شعبہ اور ابلاغیات میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے میڈیا کا وسیع میدان موجود ہے جس میںکوئی بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ مقابلے کے امتحان کے لیے بھی تیاری کی جاسکتی ہے اور سول سرونٹ کے طور پر اس ملک کے طاقتور طبقہ بیوروکریسی کا حصہ بننے کے بھرپورامکانات موجود ہوتے ہیں۔
یہ نکتہ طلبا کے علاوہ والدین کے لیے بھی اہم ہے کہ صرف سائنسی علوم ہی نہیں بلکہ سماجی علوم بھی اسی قدر اہمیت کے حامل ہیں۔ ان میں پڑھنے والے طلبا بھی معاشرے میں اسی قدر اہم کردا رادا کرتے ہیں بلکہ بعض اوقات ان کا کردار زیادہ اہم ہوجاتا ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں میڈیا سے وابستہ کسی اینکر پرسن اور وکلاء و جج صاحبان کا معاشرے میں اثرو رسوخ اس کی واضح مثال ہے۔
مندرجہ بالا گزارشات کا ہر گز مقصد امتیازی نمبروں سے پاس حاصل ہونے والوں اور پوزیشن حاصل کرنے والوں کے مقام میں کمی کرنا نہیں ہے۔ ان کے لیے تو بہت سی راہیں موجود ہیں اور ان کی راہنمائی کرنے والے بھی ہیں۔ مگر ایسے طلبا اقلیت میں ہیں۔ جبکہ اکثریت میں وہ طلبا ہیں وہ اوسط نمبر حاصل کرتے ہیں ۔ یہ ساری گزارشات انہی کے واسطے ہیں کہ محض نمبروں کی کمی کی بیناد پر اپنا حوصلہ مت ہاریں اور نہ ہی دلبرداشتہ ہوں بلکہ عزم کریں اور اس ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔