تحریر : رانا اعجاز حسین چوہان اٹھائیس جولائی کے دن پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہیپاٹائٹس سے آگاہی کا عالمی دن منانے کا مقصد اس خطرناک مرض کی روک تھام کے لئے اقدامات اور عوام میں شعور اجاگر کرناہے ۔ طبی ماہرین کے مطابق ہیپاٹائٹس اے، بی، سی اور ڈی کے وائرس کی اقسام روز بروز ہولناک صورت اختیار کرتی جارہی ہیں، ان کا بروقت علاج نہ ہونے کی وجہ سے یہ بیماریاں خطرناک نوعیت اختیار کرتے ہوئے جگر کے سرطان اور لیور سیروسزکی شکل اختیارکرجاتی ہیں۔ ہیپا ٹائٹس جگر کی سوزش کی بیماری ہے، جو ایک وائرل انفیکشن یا سم آلود عفونت سے جنم لیتی ہے۔ اس کی پانچ اقسام ہیں ہیپا ٹائٹس اے، بی، سی، ڈی اور ای۔ عالمی ادارہ صحت ( ڈبلیو ایچ او) کے مطابق ہیپا ٹائٹس اے اور ای عموماً آلودہ پانی اور ناقص خوراک کی وجہ سے جنم لیتا ہے۔ ہیپا ٹائٹس بی، سی اور ڈی انسانی جسم میں پائے جانے والے عفونت زدہ سیّال مادے، خاص طور سے خون کی ایک سے دوسرے جسم تک منتقلی سے پیدا ہوتے ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق یہ مرض پیدائش کے دوران ماں سے بچوں میں منتقل ہوسکتا ہے۔ یہ وائرس متاثرہ مریض کے ٹوتھ برش استعمال کرنے اور متاثرہ مریض کے نیل کٹر استعمال کرنے سے بھی لاحق ہوجاتا ہے، گھر کے کسی بھی فردکویہ مرض لاحق ہونے کی صورت میں اس کا ٹوتھ برش، نیل کٹر، قینچی علیحدہ کردی جائے، مرد حجام کے پاس شیوکرانے سے گریز کریں ، کیونکہ عموماً حجام کے استرے اور سامان اسٹرلائز نہیں ہوتے اور استعمال کیے جانے والے استرے بھی آلودہ ہوتے ہیں جوکسی بھی خون کی خطرناک بیماری کا باعث بنتے ہیں۔ جبکہ خواتین میں ہیپاٹائٹس کی بڑی وجوہ میں بیوٹی پارلر اور ناقص میک اپ کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔ استعمال شدہ سرنجز بھی ہیپاٹائٹس پھیلانے کی اہم وجہ ہیں۔ ہیپا ٹائٹس بی جنسی اختلاط سے بھی پیدا ہوتا ہے۔
ہیپاٹائٹس بی اور سی کوئی اچھوت کا مرض نہیں ، اس لیے یہ ہاتھ ملانے ،کھانسی یا چھینکنے یا اکھٹے کھانے پینے سے نہیں پھیلتا ۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت کے مطابق ہیپاٹائٹس سے متاثرہ ممالک میں پاکستان دوسرے نمبر پر ہے، جہاں صرف ہیپاٹائٹس کی دو اقسام، بی اور سی کے ہی تقریباً ڈیڑھ کروڑ مریض موجود ہیں۔ اس طرح پاکستان میں ہر بارہواں شخص ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہے ، ماہرین طب کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہیپاٹائٹس وائرس کی تباہ کاری سامنے آرہی ہے ، لہٰذا والدین بچے کو پیدائش کے بعد ہیپاٹائٹس بی سے بچاؤ کی حفاظتی ویکسین لازمی لگوائیں۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جگر کے اس مرض کے پھیلاؤمیں سب سے بڑا خطرہ ایسے مریض ہیں جو اپنے مرض سے آگاہ نہیں ہوتے اور وہ اسے دیگر افراد میں منتقل کر دیتے ہیں۔ ہیپاٹائٹس کے مرض کے آخری اسٹیج یا اس بیماری کے حد سے بڑھ جانے کی صورت میں جگر ٹرانسپلانٹ یا پیوند کاری کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔
ہیپاٹائٹس کی ابتدائی علامات میں متلی، قے ، دست لگ جانا ، پیشاب کی رنگت کا گہرا زرد ہوجانا،آنکھوں کی سفیدی پر پیلا پن غالب آ جانا، جلد پر بھی پیلا پن نظر آنا، تھکن اور گراوٹ کا احساس، بھوک میں کمی آ جاناشامل ہیں۔ اگر بروقت تشخیص کے بعد مریض کا متواتر علاج ہوتا رہے تو چند ہفتوں میں اس مرض کا کامیاب علاج ممکن ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق پاکستان میں بڑھتے ہوئے ہیپاٹائٹس کے مرض سے بچنے کے لیے احتیاط ہی بہترین طریقہ ہے، جس سے آپ خود کو اس موذی مرض سے بچا سکتے ہیں، اس مہلک مرض سے بچنے کے لیے چند احتیاطی تدابیر اختیار کرنا بہت ضروری ہے ،مثلاً خون لگوانے سے پہلے ہیپاٹائٹس کا ٹیسٹ ضرور کروالیں،انجکشن کے لئے ہر بار نئی سرنج کے استعمال پر اسرار کریں،آپ خواہ تندرست کیوں نہ ہو پھر بھی سال میں کم از کم دوبار اپنا خون ٹیسٹ اور مکمل میڈیکل چیک اپ ضرور کرو ائیں، تاکہ تمام مہلک امراض پر ابتدائی مراحل میں ہی قابو پایا جا سکے۔
حکومت کی جانب سے وفاقی اور صوبائی سطح پر ہیپاٹائٹس کی روک تھام اور علاج کے لیے خصوصی پروگرام جاری ہیں، گھر گھر حفاظتی ٹیکے لگانے کے علاوہ ہر بڑے اور چھوٹے ہسپتال میں اس بیماری سے بچائو کے لئے ویکسی نیشن کروائی جا رہی ہے، سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کو تقریباً مفت علاج کی سہولت میسر ہے، اس مرض میں مبتلا افراد کو بزریعہ کورئیر کمپنی ادوایات گھر تک فراہم کی جارہی ہیں، مگر اس کے باوجود اس مرض پر قابو پانا کافی مشکل ہو چکا ہے، ہیپاٹائٹس پر قابو پانے کے لئے حکومتی کوششوں کو ہی کافی نہیں سمجھنا چاہئے ،بلکہ اس سلسلے میں عوام کو بھی صحت ، صفائی اور غذا کے استعمال میں احتیاط برتتے ہوئے اپنا موثر کردارادا کرناچاہئے تاکہ اس مرض پر بھرطور طریقے سے قابو پایا جا سکے۔
Rana Aijaz Hussain
تحریر : رانا اعجاز حسین چوہان ای میل : ra03009230033@gmail.com رابطہ نمبر:03009230033