تحریر : حاجی زاہد حسین خان سعودی مملکت اور عرب ریاستوں میں ایک طویل مدت گزارنے کے بعد مجھے اور دوسرے لاکھوں محنت کشوں کو وہاں یہ شدت سے احساس ہوا کہ وہاں مقیم دوسری اقوام اپنے اپنے ملکوں سے کتنی محبت اور پیار کرتے ہیں جان چھڑکتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر ہمیں بھی شدت سے اپنے وطن پاکستان کا احساس ہوا ہم دن رات اپنے وطن کو یاد کرتے وطن والوں کو یاد کرتے کسی کو کانٹا چھبتا تو درد ہمیں محسوس ہوتا۔ بات بات پر پاکستان کے رقیبوں سے لڑ پڑتے وہاں ہر نعمت میسر ہونے کے باوجود روکھی سوکھی کھاتے ایک ایک ریال درھم جوڑتے اور تنخواہیں ملنے پر بینکوں کے آگے لائن میں لگے اپنی جمع پونجھی پاکستان بھیجتے ۔ حالانکہ ہنڈی کا کاروبار عروج پر ہوتا مگر ہم اپنے وطن کے لئے کم قیمت پر سالانہ اربوں ڈالر اپنے ملک بھیجتے۔ ہمارا ملک ترقی کرے۔ عوام خوشحال ہوں۔ دن رات منصوبے بناتے وہاں جا کر اس مرتبہ یہ کریں گے وہ کریں گے۔
چھوٹا موٹا کاروبار بنائیں گے۔ اپنوں کو اپنے ہمسایوں کو نوجوانوں کو ساتھ ملائیں گے ائیر پورٹوں پر ہنسی خوشی روپوں میں ریالوں میں ڈالروں میں ڈیوٹی دیتے ٹیکس دیتے مگر یہ خواب ائیر پورٹوں پر ہی چکنا چور ہو جاتا جب ہمارے ملک کے اہلکار ہماری ڈیوٹی ٹیکس اپنی اپنی جیبوں میں ٹھونس لیتے ۔ پھر یہ سلسلہ چل نکلتا ۔ ٹیکسوں سے ہوٹلوں سے دوکانوں سے ہمیں خونخوار نظروں سے دیکھا جاتا ۔ جیسے قصائی اپنے بکروں کو دیکھتا ہے۔ ٹٹولتا ہے۔ دفتروں میں عدالتوں میں ہر کسی کی نظر ہماری جیبوں پر کمیشن در کمیشن ، شناختی کارڈ والوں ، پاسپورٹ آفس اند باہر ، درخواستوں سرٹیفکیٹوں کا روبار کے لئے اجازت ناموں خدا کی پناہ ۔ چند ماہ میں ہی اپنے وطن اور وطن والوں کی محبت ہوا ہو جاتی ہے۔
سارے کے سارے ملکی ادارے گوڈے گوڈے کرپشن میں ڈوبے ساری کی ساری حکومت اور حکمران اس میں لتھڑے ہوئے ہائے ربا۔ ہم کہاں آگئے۔ ہفتے میں چار دن کام تین دن چھٹی لیبروں کی ہڑتال ، کلرکوں کی ہڑتال ، ڈاکٹروں کی ہڑتال ، سیاستدانوں کے دھرنے جلسے جلوس حکمران پارٹی کے جلسے سڑکیں بند سکول بند کالج بند ہر مہینے کہیں نہ کہیں الیکشن ضمنی الیکشن ہر دو سال بعد تم ہٹو ہماری باری عوام کے ووٹوں سے کامیاب ہو کر ایوانوں میں اسمبلیوں میں آنے والے لوٹے بن جاتے ۔ کوئی ادھر کو لڑھکتا ہے کوئی ادھر کو ۔ ایوانوں میں کام نہیں قوانین نہیں بس آپس میں جوتا ماری بڑھکیں۔ نتیجہ ملکی بڑے ادارے مفلوج ۔ ریلوے پی آئی اے سٹیل مل دیگر قومی صنعتی جمود اور خسارے کا شکار۔ تعلیم پر توجہ نہ صحت پر ہر طرف بے روزگاری کا سیلاب ۔ پانچ سو ہزار دیکر نوجوانوں کو دیہاری پر جلسے جلوسوں دھرنوں میں دعوت شمولیت خدا خدا کر کے مشر ف سے جان چھوٹی ۔ پی پی پی والے آگئے ن لیگ ، ق لیگ ، م لیگ اسلامی لیگ سارے سڑکوں پر ٹرین مارچ لانگ مارچ ہائی کورٹ سپریم کورٹ کھا گئے لوٹ گئے۔ لے گئے ، دو دو سال کیس چلے مگر حاصل کچھ نہ ۔ انہوں نے کمال ہوشیاری سے یوسف رضا ربانی کو گھر بھیجا۔ راجہ اشرف کو گھر بھیجا ۔ رولا پانے والوں کو کھلایا پلایا سلایا دس فیصد بیس فیصد پچاس فیصد پر راضی کیا۔ کچھ لیا کچھ دیا پانچ سال پورے کئے نہ کوئی ثبوت نہ باہر سے پیسہ واپس آیا۔ سارے کے سارے باعزت بری سونے کے ہار پہنے ۔ جیلوں سے باہر این آر او کے تحت بری ملک سے باہر مجرم سے ملزم اور پھر باعزت بری ملک اور ملک والوںکو کچھ نہ ملا ۔ ن لیگ والوں نے آگے حکومت بنائی انصاف لیگ بھی تیسری پارٹی بن کر آگئی ۔ ابھی ایوانوں میں پہنچے ہی تھے کہ سر منڈاتے ہی اولے پڑھ گئے۔
دھاندلی دھاندلی دھاندلی کا شور ایک طوفان سا اٹھ گیا۔ کمیشن در کمیشن مقرر پھر بھی دھرنے جاری ابھی کچھ گرد چھٹی ہی تھی کہ پانامہ لیکس کا طوفان آگیا ۔ کورٹ سے ہائی کورٹ پھر سپریم کورٹ ۔ نصف سال ہونے کو ہے شیخ رشید سمیت سارے کالے کوٹ پہن کر بیانات دلائل ۔ یہ گئی وہ گئی ن لیگ چو ر ہے۔ نواز شریف صادق و آمین نہیں رہے۔ اربوں لے گیا کھا گیا۔ تم ہٹو ہماری باری ہے۔ عمران خان درجن بار شیروانی بنوا چکا مگر وہ ہیں کہ جان ہی نہیں چھوڑتے تخت لاہور چھوڑتے ہی نہیں۔ ایک ہی ضد ہے ۔ نوازشریف استفیٰ دے بس باقی سب صادق و آمین ہیں ہم انکلاب لا کر رکھ دیں گے۔ کوئی ان سے پوچھے یوسف رضا گیلانی سے استفیٰ لیا تھا۔ کونسا انکلاب لے کر آئے راجہ اشرف عرف رینٹل پاور سے استفیٰ لیا کونسا انقلاب آگیا۔ جو ایک نواز شریف کے استفے سے کونسا انقلاب لا سکو گئے۔ پی پی پی سے کرپشن کے کھلاڑی عمران خان کے پاس بھاگ رہے ہیں۔ ادھر سے اُدھر ۔ یہاں سے وہاں خدا کی پناہ شیخ رشید ستاروں پہ کمندیں ڈال کر پیشگوائیاں کرنے میں مصروف جنوری سے دسمبر اگلا دسمبر یہ جائیگا وہ آئے گا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ضیالیگ سے مشرف لیگ کی دیگوں کے چمچے سال ہا سال رہے۔
انہوں نے ملک کے لئے کیا بنایا۔کونسا انقلاب لاتے رہے کہ اب ان سے توقعات رکھی جائیں۔ جماعت اسلامی ہاتھ دھو کر ن لیگ کے پیچھے پڑی ہے۔ حالانکہ یہ گزشتہ الیکشن میں ان کی حلیف تھی انہیں بھی زرداری اینڈ کمپنی والوں کی کرپشن نظر نہیں آئی ۔ ان کی جائیدادیں نظر نہ آئیں۔ عمران خان کے فلیٹ نظر نہ آئے۔ گیلانی اشرف کی چوریاں نظر نہ آئیں۔ بس نواز شریف تم ہٹو خدا کے بندو اگر تم واقعی ملک سے عوام سے مخلص ہو تو پھر لائو ان سب کو عدالت کے کٹہرے میں 62اور 63پر پورا اتاریں۔ مشرف کو کیوں باہر بھیجا آیان علی ڈاکٹر عاصم کو اور ان کے سرپرستوں کو کیوں چھوڑا مشرف کو کیوں چھوڑا ۔ لائو سب کو واپس ایک ہی صف میں کھڑے ہوں محمود و ایاز نہ کوئی بندہ رہا نہ بندہ نواز ۔ نوازشریف اگر نا اہل ہوتا ہے تو یہ سارے کیسے اہل ہو گئے۔ خدا کے لئے کوئی تو آگے آئے۔ ان سب بددیانتوں کو کمیشن خوروں کو، جرنیل ہوں یا سیاستدان بیورو کریٹ ہو ں یا ٹانگہ پارٹیاں سب کے لئے اپنی عرضی عوام کی عرضی ملک کی عرضی سپریم کورٹ میں جی ٹی آئی میں جمع کروائیں۔ داخل دفتر کرائیں۔ نوے سے شروع کریں بھاری نہیں۔ جھاڑوں پھیریں ملک کا گند ایک ہی مرتبہ صاف کریں ورنہ نواز شریف گیا تو حمزہ شہباز شریف، شہباز شریف آئے گا۔ زرداری گیا تو بلاول صنم آگیا۔
عمران گیا تو نئے اور کھلاڑی ان کی موروثی سیاست سے جان چھڑائیں۔ اگر وہ مجرم ہیں تو سراج الحق اور مولانا فضل الرحمن ہی آگے آئیں گے۔ ورنہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔ یوسف گیلانی ، راجہ اشرف گئے کیا ہوا ملک میں ملکی سیاست میں کونسا انقلاب آیاتھا۔ جو نوازشریف کے جانے سے آئے گا۔ اب جبکہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان حالت جنگ میںآبادی کا سب سے بڑا صوبہ سندھ کراچی ، حالت جنگ ، عمران خان کی ملکیت فاٹا پختونخواہ حالت جنگ میں خدا کے لئے اب ملک کے مرکزی صوبے پنجاب کو بھی سیاسی میدان جنگ نہ بنائیں۔ اب ہم پھر کسی سیاسی فوجی اور خونی انقلاب کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ کچھ تو ملک پر رحم کریں ۔ ہمارے چاروں اطراف ہمارے دشمن تاک میں بیٹھے ہیں۔ ( آلامان والحفیظ ) تماشہ لگا ہے بازی گروں کا میرے دیس میں انہیں اٹکلیاں سوجی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں۔
Haji Zahid Hussain
تحریر : حاجی زاہد حسین خان ممبر فیڈریشن آف کالمسٹ پاکستان hajizahid.palandri@gmail.com