تحریر : پروفیسر رفعت مظہر لاہور میں ارفع کریم سینٹر کے عقب میں ایک سبزی اور فروٹ منڈی ہوا کرتی تھی، جو اب متروک ہے۔ پنجاب گورنمنٹ نے تقریباََ سات سال پہلے یہ منڈی کاہنہ کے قریب منتقل کر دی تھی لیکن کچھ لوگ ابھی تک وہاں سبزی اور فروٹ کا کاروبار کر رہے تھے ۔حکومت نے تجاوزات کے خاتمے کے لیے وہاں آپریشن شروع کر دیا اور پرانی عمارتوں کو مسمار کرنے لگے۔اِسی سلسلے میں ایک پولیس چوکی بھی وہاں قائم کی گئی۔
ابتدائی تحقیقات کے مطابق 24 جولائی کو تقریباََ 4 بجے شام ایک خودکُش حملہ آور رکشے پر سبزی منڈی آیا۔ دو سہولت کار بھی اُس کے ساتھ تھے ۔اُنہوں نے خودکش بمبار کو وہاں اتارا اور خود واپس چلے گئے ۔خودکش بمبار نے پولیس چوکی کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں2 تھانیداروں سمیت 9 پولیس اہلکاراور 17شہری شہید ہو گئے ۔دھماکہ اتنا شدید تھا کہ قریبی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے ، وہاں کھڑی گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں میں آگ لگ گئی اور انسانی اعضاء فیروزپور روڈ تک بکھر گئے۔ یہ وحشت و درندگی کا ایسا ننگا ناچ تھا جس کی توقع صرف طالبان نامی درندوں ہی سے کی جا سکتی ہے جو انسانیت کی پیشانی پر بَدنما داغ ہیں لیکن یہ وحشی درندے اگر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی ایسی بزدلانہ کارروائیوں سے ہمارے حوصلے پست کر دیں گے تو یہ اُن کی بھول ہے۔ وہ آکر دیکھ لیں کہ زندہ دلان کے اِس شہر کی رونقیں اُسی طرح سے بحال ہیں اور عالمِ کَرب میں بھی سبھی اپنے فرائضِ منصبی پوری دِل جمعی سے ادا کر رہے ہیں۔ ڈی آئی جی آپریشن حیدر اشرف نے کہا کہ حملوں کا پہلے سے خطرہ تھا اِسی لیے تجاوزات کے خلاف آپریشن کرنے والی ٹیم کی حفاظت پر پولیس تعینات تھی ۔اِس دیسی ساختہ بم میں دَس کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا۔سوال مگر یہ ہے کہ جب کئی روز پہلے سے ایسے حملوں کا خطرہ موجود تھا تو پھر مناسب انتظامات کیوں نہ کیے گئے۔
طالبان نامی یہ دہشت گرد ایسے وحشی درندے ہیں جن کا دینِ مبیں سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ کیونکہ کسی بے گناہ کے خون میں ہاتھ رنگنے سے بڑا گناہ کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ حکمت کی عظیم الشان کتاب میں درج کر دیا گیا کی جس نے کسی ایک بے گناہ کا خون کیا ،اُس نے گویا پوری خُدائی ہی کو قتل کر دیا(مفہوم)۔ اسی لیے بلاخوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ یہ وطن دشمن قوتوں کے آلۂ کار ہیں جنہیں دینِ مبیں کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اِن کے ناپاک وجود سے اِس خطۂ پاک کو پہلے آپریشن ضربِ عضب اور اب رَد الفساد کے ذریعے تقریباََ نابود کر دیا گیا ہے لیکن پھر بھی کچھ چوہوں کی طرح اپنے بِلوں میں گھُسے ہوئے ہیں اور یہ بِل بدقسمتی سے برادر اسلامی ملک افغانستان میں ہیں۔اب یہ دہشت گردبھارتی خفیہ ایجنسی ”را” کی ٹریننگ کے بعد افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور دہشت گردی کی وارداتیں کرکے واپس بھاگ جاتے ہیں ۔پاکستان اِس دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ساٹھ ہزار سے زائد جانوں کا نذرانہ دے چکا ہے اِس کے باوجود بھی امریکی مطالبہ ”ڈومور” کا ہے ۔ ہمارے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اب امریکہ کو دوٹوک یہ پیغام دے دیا ہے کہ پاکستان نے جو کچھ کرنا تھا کر چکا ، جتنی قُربانیاں دینی تھیں دے چکا ، اب امریکہ کی باری ہے۔
دہشت گردی کی اِس واردات کی تمام سیاسی جماعتوں نے بھرپور مذمت کی لیکن پیپلزپارٹی کے وسطی پنجاب کے صدر قمرالزماں کائرہ کو یہاں بھی سیاست سوجھ ہی گئی ۔ بلاول ہاؤس لاہور سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کائرہ صاحب نے کہا کہ دہشت گرد ہمیشہ سیاسی بحران سے فائدہ اُٹھاتے ہیں ۔ ذاتی مصیبت میں گھِرے حکمرانوں کے لیے حکومت چلانا ممکن نہیں رہا اِس لیے بہتر ہے کہ وزیرِاعظم مستعفی ہو جائیں۔ کائرہ صاحب کو شاید ادراک ہی نہیں کہ لاہور میں قیامتِ صغرا کاسا سماں ہے ۔ گھر گھر صفِ ماتم بچھی ہے اور دَر دَر پہ نوحہ خوانی لیکن دُکھ کی اِس گھڑی میں بھی وہ وزیرِاعظم کے استعفے کی رَٹ لگا رہے ہیں۔کیا اُنہیں سیاست چمکانے کے لیے کوئی اور موقع نہیں ملا ؟۔ کچھ ایسا ہی بیان غیرملکی شہری ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی دیا ۔ اُنہوں نے کہا ” عوام دہشت گردوں کے رحم وکرم پر ہیں ۔دہشت گردی کے فتنے کے ذمہ دار موجودہ حکمران ہیں ”۔ ڈاکٹر طاہرالقادری تو خیر ہیں ہی غیرملکی شہری ،اُن سے کیا گلہ۔وہ تو سال میں ایک آدھ مرتبہ زکواة اور نذرانے اکٹھے کرنے کے لیے پاکستان تشریف لاتے ہیں اور حصولِ مقصد کے بعد اپنے وطن لوٹ جاتے ہیں، لیکن عقیل و فہیم قمر الزماں کائرہ کو دُکھ کی اِس گھڑی میں ایسا بیان نہیں دینا چاہیے تھا۔ اُنہیں وہی رویہ اپنانا چاہیے تھا جو وزیرِداخلہ چودھری نثار علی خاں نے اپنایا۔
چودھری صاحب شدید کمر درد کی وجہ سے دو دفعہ پہلے بھی اپنی پریس کانفرنس ملتوی کر چکے تھے ۔اُنہیں چلنے اور بیٹھنے میں شدید دشواری پیش آ رہی تھی ۔ اِس کے باوجود اُنہوں نے 25 جولائی کوبہرصورت پریس کانفرنس کرنے کا اعلان کیا ۔وہ پریس کانفرنس میں تشریف بھی لائے لیکن ایک دردمند دِل رکھنے والے شخص کی طرح اُنہوں نے غم و اندوہ میں ڈوبی ہوئی آواز میں کہا کہ وہ تو اپنا سیاسی دُکھڑا بیان کرنے آئے تھے لیکن جب لاہور میں اچانک دو درجن سے زائد گھروں میں صفِ ماتم بِچھ گئی تو اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ فی الحال سیاست پہ کوئی بات نہیں کریں گے ۔ اُنہوں نے کہا کہ جِن کے عزیز واقارب موت کی وادی میں اتر گئے ہیں ،وہ اُن کی سیاسی روداد سُن کر کیا محسوس کریں گے ۔ کچھ صحافیوں نے اُن سے تند وتیز اور تلخ سوالات بھی کیے لیکن چودھری صاحب” نو کمینٹس”کہہ کر ٹال گئے ، البتہ اُنہوں نے اتنا ضرور کہا کہ اُن کی آئندہ پریس کانفرنس تک قیاس آرائیوں سے گریز کریں۔ یہ تو خیر چودھری صاحب بھی جانتے ہیں کہ پاکستانی سیاست وصحافت کی بنیاد ہی قیاس آرائیوں پرہے ۔ صحافی برادری کو اُتنی دیر تک چین ہی نہیں آتا ،جب تک وہ چائے کی پیالی میں طوفان نہ اُٹھا لے۔اِس لیے محترم وزیرِداخلہ صاحب یہ قیاس آرائیاں تو تب تک جاری رہیں گی ، جب تک آپ پریس کانفرنس کرکے دو ٹوک اعلان نہیں کر دیتے۔ چودھری صاحب تو سانحۂ لاہور پر اظہارِافسوس کرکے رخصت ہو گئے لیکن ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ نوازلیگ کو چودھری صاحب کی جتنی آج ضرورت ہے ،شاید پہلے کبھی نہ تھی ۔ پاناما کیس کے تناظر میں افراتفری اور الزام تراشیوں کے اِس موسم میں مخالفین کو بہ اندازِ حکیمانہ جواب دینے کا فَن چودھری صاحب سے بہتر کسی کو نہیں آتا ۔وہ مدلل گفتگو کرتے ہیں اور کھری بات مُنہ پر کہنے سے کبھی گریز نہیں کرتے۔
موجودہ صورتِ حال میں وطنِ عزیز سیاسی عدم استحکام کی طرف تیزی سے گامزن ہے ۔وطن دشمن عناصر کے لیے ایسا ماحول انتہائی سازگار ہوتا ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اِسی عدم استحکام کی شہ پا کر وطن دشمنوں نے پاکستان کے دِل پر وار کیا ۔ یہ بھی عین حقیقت ہے کہ دہشت گردانہ سرگرمیاں زور پکڑنے لگی ہیں ۔ ایسے میں چودھری نثار علی خاں کا روٹھ جانا کسی بھی صورت میں ملک کے لیے بہتر ہے نہ قوم کے لیے۔ وہ چودھری نثار ہی تو ہیں جن کے فہم وتدبر اور پاک فوج کے عزمِ صمیم کی بدولت پاکستان سے دہشت گردی کے ناسور کا تقریباََ خاتمہ ہوا اور قوم یہ سمجھنے لگی کہ شاید اِس لعنت سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا مِل گیا ۔ کراچی امن بحالی میں چودھری صاحب کا کردار سب پر عیاں ہے ۔ وہ کراچی میں امن لانے کے لیے کئی بار سندھ حکومت کے سامنے ڈَٹ کر کھڑے ہوئے ۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی آج بھی اُنہیں اپنے دشمنوں کی صفِ اوّل میں شمار کرتی ہے لیکن چودھری صاحب کی رگوں میں دَوڑتے ”خونِ گرم” ببانگِ دہل کہہ رہا ہے کہ
کب دہلا ہے آفاتِ زمانہ سے میرا دِل طوفاں کو جو آنا ہے تو دروازہ کھُلا ہے
آجکل وہ اپنوں سے ہی روٹھے ہوئے ہیں لیکن اپنوں سے بھلا کوئی کتنی دیر تک روٹھ سکتا ہے ،بالآخر اُسے ماننا ہی ہوتا ہے۔