تحریر: محمد نورالہدیٰ سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی نے پنجاب کے موجودہ وزیراعلیٰ شہباز شریف کو مناظرے کا چیلنج دیتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں مل بیٹھ کر اپنے اپنے ادوار کا موازنہ کرتے ہیں کہ کس کا دور بہتر تھا ؟ پرویز الٰہی کے اس چیلنج کے جواب میں پنجاب کابینہ کے وزراء نے مناظرے کیلئے خود کو پیش کیا اور کہا ہے کہ وہ شہباز شریف سے پہلے ان کے وزراء سے مناظرہ کریں ۔ ممکن ہے یہیں سے انہیں ”افاقہ” ہوجائے ۔
پاکستان مسلم لیگ (ق) اس وقت بظاہر چند لوگوں پر مشتمل سیاسی پارٹی ہے جس میں اہم نام اب شاید ہی کوئی رہ گیا ہوگا … ق لیگ اس وقت پنجاب اسمبلی میں صرف 8 ، قومی اسمبلی میں 1 جبکہ سینیٹ میں 2 نشستوں کی مالک ہے مگر ان ممبران کی فعالیت ڈھونڈنے سے بھی نظر نہیں آتی … جبکہ جو ”غیر ممبرز” ہیں ان میں سابق وزیر تعلیم میاں عمران مسعود کے علاوہ ان کے پاس کوئی نمایاں نام نہیں ہے ۔ عمران مسعود اور ماسوائے چند دیگر لوگوں کے ، باقی سب (ق) لیگ کو خیرباد کہہ چکے ہیں ۔ یہ تو میاں عمران مسعود اور (ق) لیگ کے ساتھ اب تک منسلک گنے چنے سیاستدانوں کا ”بڑا پن” ہے کہ وہ مخالف جماعتوں سے بڑے بڑے عہدوں کی آفرز کے باوجود مشکل حالات میں بھی چوہدری برادران کا ساتھ نبھا رہے ہیں ۔ اگر اس میں سے عمران مسعود اور کامل علی آغا جیسے لوگ نکل جائیں تو اس کا نام لیوا بھی کوئی نہ ہوگا۔ ماشااللہ (ق) لیگ کی قیادت اس قدر ”بالغ النظر ” اور ”وسیع ویژن” کی حامل ہے کہ وہ ایسے ہیرے کی قدر بھی جان نہیں پائی ، وگرنہ اس سرمائے سے ضرور استفادہ کرتی ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی ہر کچھ عرصہ بعد اخباری بیان بازیوں اور میڈیا ٹاکس وغیرہ کے ذریعے اپنی پارٹی کی ”زندگی” کا ثبوت دینے کی کوشش کرتے ہیں … وگرنہ صورتحال یہ ہے کہ ق لیگ کے پاس اب بھی آئندہ الیکشن کیلئے کوئی نمایاں ”عوامی” امیدوار دستیاب نہیں ہے … اور تو اور ، اس کی جانب سے قومی یا صوبائی اسمبلی کی ٹکٹیں لینے پر بھی کوئی آمادہ دکھائی نہیں دے رہا ۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ان کی جو ”سائیکل” بیچ چوراھے میں پنکچر ہوئی تھی ، اسے ہاتھ لگانے پر اب تک کوئی تیار نہیں ہے ۔
موسمی سیاستدان کیا جانیں کہ ویژن کیا ہوتا ہے ۔ انہوں نے کچھ ڈیلیور کیا ہوتا تو 2013 ء کے انتخابات میں بری طرح ان کی پارٹی مسترد نہ ہوتی ۔ پرویز الٰہی نے اپنے سابقہ دور میں آمریت کی چھتری تلے پناہ لے کر حکومت کی ۔ یہاں تک کہ اس دور میں انہیں ”ایڈجسٹ” کرنے کیلئے خصوصی طور پر گنجائش نکالی گئی اور ڈپٹی وزیراعظم کی سیٹ ”کرئیٹ” کی گئی ۔ مگر بحیثیت وزیراعلیٰ پنجاب انہوں نے 1122 سروس اور چند تعلیمی منصوبوں کے علاوہ اپنے صوبے کیلئے کوئی قابل ذکر کام کیا اور نہ ہی بطور ”ڈپٹی وزیراعظم” … حالانکہ ڈپٹی وزیراعظم بننے کے بعد تو ان کے فرائض اس ضمن میں مزید بڑھ گئے کہ اپنے صوبے یا کم از کم اپنے شہر کو ہی ترقی دلواتے ، لیکن انہوں نے خاموشی سے عہدے کے مزے لوٹے … اب وہ (ن) لیگی وزیراعلیٰ کے ان منصوبوں پر تنقید کئے جارہے ہیں جن سے استفادہ کرکے عوام کا صحیح معنوں میں فائدہ ہورہا ہے ۔ البتہ پرویز الٰہی کا یہ شکوہ بالکل جائز ہے کہ شہباز شریف حکومت ان کے چھوڑے گئے منصوبوں پر تختیاں لگا رہی ہے ، مگر حضور ، یہ بھی تو دیکھیں کہ آپ کی حکومت کو بیچ راستے میں چھینا نہیں گیا تھا بلکہ اس نے مدت پوری کی تھی ، تو پھر آپ کے منصوبے ادھورے کیوں رہے ؟ یہ تو پھر آپ کی اہلیت پر سوالیہ نشان ہوا۔
ایسے میں اگر شہباز شریف نے ان منصوبوں کو مکمل کیا ، تو اس پر اعتراض کیسا ؟ ”جنگلہ” بس سے انتہائی کم خرچہ پر روزانہ لاکھوں لوگ فیضیاب ہورہے ہیں ۔ صرف 20 روپے میں لاہور کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کا سفر کبھی خواب میں بھی کسی نے نہیں کیا ہوگا … اورنج ٹرین منصوبہ بھی یوں ہی روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں سفید پوش لوگوں کو فائدہ دے گا … لیپ ٹاپ سکیم سے ان طلباء کو بھی استفادہ کرنے کا موقع ملا جن کے بس میں لیپ ٹاپ لینا کبھی تھا ہی نہیں … جو لوگ گھر خریدنے کی سکت نہیں رکھتے ، ان کیلئے آشیانہ منصوبہ بنا دینا کون سا جرم ہے ؟ … سابقہ ا دوار میں بجلی کی لوڈشیڈنگ اپنے عروج پر تھی ۔ سولہ سے بائیس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ معمول کی بات ہوا کرتی تھی ، آج وہی لوڈشیڈنگ کم ہوکر آٹھ سے دس گھنٹوں پر آچکی ہے ۔ اس ضمن میں پاور پراجیکٹس لگ رہے ہیں ، جبکہ سابق ادوار میں تو ایک میگا واٹ بجلی بھی پیدا نہیں کی گئی تھی ۔ موجودہ حکومت نے آکر ان اندھیروں سے نبٹنے کی ٹھانی تو کیا غلط کیا ؟ … ہاں ، یہ ماننا پڑے گا کہ پرویز الٰہی کے دور میں صرف ایک تعلیم کا شعبہ تھا جس پر بہت کام ہوا ۔ نئی جہتیں متعارف کروائی گئیں اور اس شعبے کی ترقی کیلئے اہم اقدامات اٹھائے گئے … لیکن کیا سابقہ ادوار میں پوزیشن ہولڈر طلباء نے کبھی غیر ملکی دورہ جات کئے؟ موجودہ حکومت نے تو پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں کے طلباء کو بھی یہ موقع فراہم کیا ، تاکہ ان کا حوصلہ بڑھے اور وہ مزید دل لگا کر پڑھیں … شعبہ صحت کی بات کریں تو شہباز حکومت نے دیہی سطح پر شعبہ صحت کو ترقی دی اور موبائل ہسپتال اور دیگر ہیلتھ سروسز متعارف کروائیں۔
ن لیگ کے سیاسی حریفوں کو سستی روٹی ، دانش سکول اور دیگر منصوبوں میں کرپشن تو دکھائی دیتی ہے لیکن انہوں نے این آئی سی ایل اور پنجاب بینک سکینڈل کا حساب آج تک نہیں دیا ۔ بلکہ اس زمانے میں مذکورہ سکینڈلز میں ملوث ملزمان کو باقاعدہ پروٹوکول دلوایا گیا … پنجاب میں ویسے بھی آج کل محکمہ اینٹی کرپشن بہت متحرک ہے ۔ جہاں کہیں سے کرپشن کی سن گن ہوتی ہے ، رنگے ہاتھوں گرفتاریاں عمل میں لائی جارہی ہیں … قابل ذکر امر یہ بھی ہے کہ (ن) لیگی حکومت کے دور میں پہلی مرتبہ کسی وزیراعظم اور وزیراعلیٰ نے خود کو احتساب کیلئے پیش کیا اور 3 نسلوں کا حساب دیا ، لیکن ماضی کے حکمرانوں نے تو اپنے بچوں کی کرپشن کیس میں گرفتاری پر انہیں دوران حراست وی آئی پی پروٹوکول دلوایا … جبکہ کرپشن کے کئی ”مبینہ ملزمان” بیماری کا بہانہ کرکے بیرون ملک چھپے بیٹھے ہیں … میرا نہیں خیال کہ شہباز شریف کو کسی سے سرٹیفیکیٹ لینے کی ضرورت ہے ، کیونکہ ان کے ویژن کی مثالیں تو پاکستان سے باہر بھی دی جاتی ہیں ۔ ان کے منصوبوں میں شفافیت کی گواہی ٹرانسپرنسی کے عالمی اداروں نے دی رکھی ہے ۔ یہاں تک کہ انہوں نے میگا پراجیکٹس میں اربوں روپے کی بچت کرکے دکھائی ، جبکہ ماضی میں ہم نے بچت کی بجائے ”کمیشن” کمانے کی مثالیں ضرور سن رکھی تھیں ، قومی خزانہ بچانا موجودہ حکومتی دور میں ہی سنا ہے ۔
بدقسمتی سے ہمارے سیاستدانوں بالخصوص اپوزیشن نے ہر دور میں حکومتوں کیلئے معاون ثابت ہونے کی بجائے رکاوٹیں پیدا کی ہیں ۔ کاش کہ ہمارے سیاستدان دوعملی ، دروغ گوئی اور چاپلوسی کی روش ترک کرکے اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں ، اپنا ماضی اور حال دیکھیں ، چاند پر تھوکنے اور عوام کو اپنے جھانسوں میں لانے یا لالی پاپ دینے کی بجائے ملک و قوم کے ساتھ صحیح معنوں میں مخلص ہوجائیں ، تو ہماری سیاست سے افراتفری ختم ہوجائے گی اور حکومتوں کو استحکام ملے گا ، جس کے نتیجے میں ملک ترقی کی جانب بڑھے گا اور عوام کی حالت سنورے گی ۔
طرفہ تماشہ یہ ہے کہ چوہدری برادران اپنے رویے اور پارٹی کی حالت زار پر غور کرنے کی بجائے ، الزام تراشی اور تنقید کی سیاست پر توجہ دئیے ہوئے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی حریفوں پر تنقید کی بجائے سیاستدان زمینی حقائق کو قبول کریں ، نیز اپنی اپنی پارٹیاں مضبوط بنانے پر توجہ دیں ، کیونکہ بظاہر آئندہ الیکشن میں (ن) لیگ کے برابر کوئی پارٹی دکھائی نہیں دے رہی ۔ اگر ق لیگی قیادت اپنی روش پر یونہی قائم رہی تو وقت قریب ہے جب گجرات سے بھی ان کی رہی سہی سیاست کا خاتمہ ہو جائے گا۔