تحریر : عتیق الرحمن اسلام کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ ملت اسلامیہ کا ہرفرد بشر اپنے ماتحتوں کے بارے میں جوابدہ ہے ۔جیساکہ حدیث نبویۖ میں ہے کہ ہرراعی اپنی رعایا کے بارے میں جوابدہ ہیں۔اسی طرح یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ ”اپنے احتساب و محاسبہ کریں قبل اس کے کہ یوم حساب کے د ن حساب طلب کیا جائے”۔اس شرعی اصول کو پیش نظر رکھ کر ملت اسلامیہ اور بشر کا ہرفرد یوم محشر کو اپنے اپنے کئے دھرے کا حساب دینے کا پابندہوگا اور نہ صرف وہ خود پابند ہوگا بلکہ اس کے اعضاء و جوارح ہی خود اس کے جرموں سے پردہ فاش کریں گے۔مگرقبل اس کے کہ اللہ کے حضور میں میدان میں جوابدہی ہو،برے اعمال کے مرتکبین کو دنیا میں بھی مقام عبرت بنانا منشا ایزدی ہے۔
جیسا کہ قارون و فرعون،نمروداور دنیا کی بڑی بڑی قومیں نیست و نابود کردی گئیں گویا کہ ان کی دنیا بھی تباہ اور آخرت میں ذلت و رسوائی کے ساتھ جہنم ان کا ٹھکانہ ٹھہرا۔ ملت اسلامیہ کا تعلیم یافتہ اور ذی شعور طبقہ جب اس اصول پر ایما ن رکھتاہے کہ رب کریم اور محبوب خدا کے حضور بلآخر حاضری و جوابدہی ہونی ہے تو کیا وجہ ہے کہ وہ دھوکہ دہی، فراڈ و کرپشن، رہزی و ڈاکے مارتے نظر آئے اوریہاں اس امر کی کوئی قید نہیں ہے کہ ملک و قوم کی تقدیر سے کھیلنے والا طاقتور ہو یا بڑے مناصب پر براجمان ہو گا توہی اس کا حساب لیا جائے گا بلکہ اسلامی نظام سیاست و معاشرت میں سماج کے اعلیٰ و ادنیٰ کو مثالی بننا پڑے گا کہ اس کے پاس عہدہ ہے یا نہیں ،حاکم ہے یا محکوم، امیر ہے یا غریب سب کو ظلم و زیادتی اور ناانصافی کی سزا دی جائے گی ۔ہماری شومی قسمت ہے کہ معاشرہ مکمل کرپٹ و بددیانت ہوچکا ہے،دھوکہ دہی،لوٹ مار و غلط بیانی، اخلاقی بے راہروی اور اسلام کے ابدی اصولوں سے ناصرف انحراف بلکہ ببانگ دہل ان کا تمسخر اڑانا شعار بن چکاہے تاہم اس سب کی موجودگی میں ایک سعی لاحاصل کی جارہی ہے کہ حکمران درست ہوگا تو نظام درست خطوط پر چلے گا بھلے معاشرے کے اندر ڈاکوراج ہو،چوروں کی کثرت ہوچکی ہو، اخلاقی و ایمانی صفات حسنہ کا جنازہ نکالنے والوں کو کھلے بندے چھٹی مل چکی ہو لیکن ایک حاکم کا یا ایک تنظیم و جماعت کا احتساب ہوجائے تو بات ختم ہوجائے گی۔
جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے اگر فی الحقیقت ہمیں اصلاح معاشرہ کرنا ہے اور ہم ملک و قوم کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں صرف میڈیا یا عوامی پبلسٹی کیلئے نہیں بلکہ خالص ایمانی و نظریاتی بنیادوں پر غیر معمولی فیصلے کرنے ہونگے ایسا کب ممکن ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں کا استاد تنخواہ مکمل لیتا ہو مگر تعلیم دینے کیلئے اس نے اپنی اکیڈمی قائم کی ہوئی ہو،ڈاکٹر سرکاری ہسپتال سے بھاری بھر کم مراعت وصول کرے مگر علاج و معالجہ کیلئے پرائیویٹ کلینک پر بیٹھے۔
ملازم تنخواہ مکمل لیتا نظر آئے مگر ڈیوٹی ٹائمنگ سے لیٹ دفتر حاضر ہو اور جلدی لوٹ جانے کے ساتھ دفتری اوقات میں لہو و لعب ٹی پارٹیوں اور خود ساختہ میٹنگوں میں مصروف رہ کر عوام کے احساس و جذبات کا کھلواڑ کرے،وکیل ہو یا جج،پولیس والا ہو یا فوجی، مولوی یو یا داعی یا پھر سیاستدان سبھی کے سبھی جزوی طورپر اپنے فرائض میں پہلو تہی کرتے نظر آئیں بلکہ بات تو دوقدم آگے کی ہے کہ دہاڑی دھار مزدور سے لیکر ریڑھی بان، تاجر و صنعت کار ،صحافی و دانشور بھی اس بدترین عمل میں ملوث ہوں مگر اس کے ساتھ وہ توقع یہ رکھیں یا خواہش کریں کہ ملک میں عدل و انصاف ہونا چاہیے یا پھر وہ یہ کہیں کہ احتساب ملک کے وزیر اعظم یا ایک مخصوص خاندان یا جماعت کا ہو۔
ہمیں اس بات کی اہمیت و افادیت سے چنداں انکار نہیں کہ احتساب ہونا چاہیے بڑوں کا سب سے پہلے مگر اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم سب اپنی اپنی جگہ پر خود اپنا احتساب کریں کہ مبادا ہم ان لوگوں میں سے نہ ہوجائیں کہ جو نیکی و بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ اللہ کے غضب سے مامون نہیں رہ سکیں گے کیونکہ انہوں نے خود اپنے کہے پر عمل نہ کیا۔
ATIQ UR REHMAN
تحریر : عتیق الرحمن 0313-5265617 atiqurrehman001@gmail.com