تحریر : علی عمران شاہین یوں تو امریکہ اول دن سے ہمارے لئے آستین کا سانپ رہا ہے لیکن حالیہ چند برسوں میں تو اس نے بظاہر اتحاد اوردوستی کے نعروں کے ساتھ دشمنی بالکل کھلی اور واضح کر دی ہے۔ ایک ماہ کے اندر اندر امریکہ نے ہماے اول تا آخر سب سے بڑے دشمن بھارت کے ساتھ دوستی و وفا کے کتنے عہدوپیمان باندھے اور انہیں عملی جامہ بھی پہنانا شروع کر دیا تو ہمارے خلاف اس کی نہ زبان رک رہی ہے اور نہ ہاتھ پائوں۔ امریکی محکمہ خارجہ نے جسے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ بھی کہا جاتا ہے۔
دہشت گردی کے حوالے سے اپنی سالانہ رپورٹ برائے سال 2016-17ء جاری کی ہے جس میں پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں بدستور داخل رکھا ہے جہاں بقول امریکہ ”دہشت گردوں” کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔ امریکہ نے پاکستان کو سال 2015-16ء میں ہی فہرست میں ڈالا تھا اسے من و عن شامل رکھا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ پاکستان اب تک دہشت گردی کو ختم کرنے میں ناکام رہا ہے جس کی اس سے توقع تھی اور جو ہمارے مطالبے تھے۔ رپورٹ میں حقانی نیٹ ورک کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ نیٹ ورک پاکستان سے آپریٹ کرتا ہے اور افغانستان میں امریکی مفادات پر حملوں میں ملوث ہے اور پاکستان نے اب تک اس کے خلاف کوئی خاص کارروائی نہیں کی۔ اس کے بعد جن گروپوں اور تنظیموں کا ذکر کیا ان میں جیش محمد بھی شامل ہے تو سب سے زیادہ اور بار بار تذکرہ لشکر طیبہ، جماعة الدعوة اور فلاح انسانیت فائونڈیشن کا ہے۔ امریکی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان کے خلاف وہ کارروائی نہیں ہوئی جو امریکہ چاہتا تھا۔ ان سب کے حوالے سے یہ بھی کہا گیا کہ یہ مقبوضہ کشمیر میں متحرک ہیں یا وہاں جاری تحریک کو کسی نہ کسی شکل میں مدد و تعاون فراہم کر رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔اس رپورٹ کے ساتھ ہی امریکہ نے پاکستان کو اس اتحادی فنڈ کے 35کروڑ ڈالر دینے سے انکا رکر دیا جو وہ ہمیں افغان جنگ میں حصے کی وجہ سے دینے کا ہر لحاظ سے پابند ہے۔
تازہ امریکی رپورٹ میں اس حوالے سے اس کی انتہائی معمولی اور محتاط ترین الفاظ میں تحسین کی گئی کہ پاکستان نے فاٹا میں انتہا پسندوں کے خلاف کامیاب آپریشن کیا کہ اس کے اہداف میں وہ لوگ شامل نہیں ہیں جن کے خلاف امریکہ اقدامات چاہتا ہے۔امریکہ کی جانب سے پاکستان کے خلاف نئی چارج شیٹ اس بات کی ایک اور دلیل ہے کہ امریکہ پاکستان کا کبھی دوست نہیں تھا اور نہ ہو گا۔
نائن الیون کے بعد امریکہ کی دھمکیوں اور حالات پیش نظر رکھتے ہوئے پاکستان نے اس کا ساتھ دیا تھا۔ آج اس ساتھ کے 17سال ہونے والے ہیں لیکن امریکی مطالبات کی شیطانی آنت اتنی طویل ہے کہ اس کا سرا کہیں ملنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ ساری دنیا مانتی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے سب سے زیادہ قربانیاں پیش کیں لیکن امریکہ کی ”ڈومور” کی رٹ ختم ہی نہیں ہوتی۔ ظلم کی حد یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی جو اس وقت بھی مختلف انداز اور مختلف طریقوں سے دنیا کے کئی خطوں میں مسلمانوں ہی کا قتل کر رہے ہیںکوکوئی پوچھنے والا نہیں۔کیسی ستم ظریفی ہے،برطانوی وزیراعظم تسلیم کرتا ہے کہ انہوں نے عراق پر جن الزامات کے تحت حملہ کر کے تباہی مچائی تھی، وہ محض افواہ تھی لیکن نہ امریکہ کو کوئی پوچھ سکتا ہے اور نہ اس کے حوالے سے دنیا انہیں جوابدہ سمجھتی ہے۔
اس وقت بھی عراق اور شام امریکی سازشوں اور مکاریوں کی آتش میں جل رہے ہیں اور ان کے کئی ملین شہری ملک کے اندر تو کئی کئی ملین ملک سے باہر دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں لیکن اس تباہی کا کہیں تذکرہ نہیں کہ اس کے بپا کرنے والوں کے خلاف کوئی اقدام ہونا چاہئے ۔ تین سال پہلے امریکہ نے انہی ملکوں میں داعش کے نام سے ایک سازش کا آغاز کیا،جس کی انتہا اب عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل کی اینٹ سے اینٹ بجا کر کی گئی ۔ تین سال پہلے اچانک کہا گیا کہ ایک انتہا پسند قوت میدان میں آ گئی ہے جس نے بڑے علاقے سے عراقی اور شامی فوجوں کو مار بھگایا ہے اور ان کے سامان جنگ پر قبضہ کر کے ‘خلافت’ قائم کر دی ہے۔ پھر خود امریکہ نے وقت دیا کہ اس قوت پر دو سال تک قابو نہیں پایا جا سکے گا یعنی چور تو خود ساری سازش سے بخوبی واقف تھا،یوں چور کے دیئے وقت کے مطابق دو سال بعد پہلے فلوجہ شہر کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور اب موصل کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے۔10لاکھ سے زائد لوگوں کو گھروں سے بھگا کر نہ صرف ان کی املاک لوٹ کر تباہ کر دی گئی ہیں بلکہ بغداد میں قائم فوجی حکومت کے مذہبی عقائد کے مخالفین کو اس قدر وحشیانہ انداز سے قتل کیا گیا اورکیا جا رہا ہے کہ خدا کی پناہ… عراقی فورسز فلوجہ کے بعد موصل کی رہائشی خواتین کی عزتیں بھی پامال کرتی رہیں اور وہ اسے اپنی فتح کے طور پر پیش کرتی ر ہیں۔ یہ سارا وہ علاقہ تھا جہاں امریکہ اپنے اتحادیوں کے سمیت شکست کھا کر بھاگ نکلا تھا۔
امریکی اسے ”سنی تکون” کہہ کر کو موت کا علاقہ قرار دیتے تھے۔لیکن اب کی بار انہوں نے طویل منصوبہ بندی کی اور نئی سے نئی سازشیں میدان میں لائیں اور یہاں بڑے پیمانے پر قتل عام کیا۔ امریکہ چونکہ خود کو دنیا کا خدا سمجھتا ہے، اس لئے اسے کوئی پوچھ نہیں سکتا لیکن پاکستان کو چونکہ وہ کمزور و ناتواں سمجھتے ہیں سو معمولی بات پر بھی اس کا بازو مروڑنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاں ہم بھی حقیقی امریکہ کو دشمن تسلیم کر کے اس کی دنیا میں غنڈہ گردی اور بدمعاشی بے نقاب کریں، وہیں دنیا میں اپنی حیثیت کو منوانے کے لئے بھی متحرک و متحد ہوں۔ مسلم دنیا کو جوڑنے کا کام سعودی عرب نے بہت زیادہ اور بہت دلجمعی سے کیا جسے اب آگے بڑھانے اور اپنے الگ اتحاد بنانے کی ضرورت ہے۔ جب تک ہم یہ نہیں سمجھیں اور مسلمانوں کو سمجھائیں گے کہ ساری جنگ کی بنیاد ہمارا دین اسلام ہے، جسے مٹانے اور ختم کرنے کے لئے دشمن دن رات لگے ہوئے ہیں، اس وقت تک بات نہیں بنے گی۔
امریکہ مانتا ہے کہ لشکر طیبہ، جیش محمد، جماعة الدعوة اور اس کے ذیلی ادارے فلاح انسانیت فائونڈیشن کا امریکہ سے کوئی براہ راست تصادم نہیں ۔ ان سب سے پریشانی بھارت کو ہے اور بھارت کی تکلیف کا درد آخر امریکہ کو کیوں سب سے زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ امریکہ کی اپنی حالت یہ ہے کہ وہ ایک نہتی خاتون ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو قید کر کے محض اس الزام پر کہ اس نے امریکی فوجیوں پر حملے کی نیت سے گن اٹھانے کی کوشش کی تھی، 86سال کی قید کی سزا سنا دی۔ امریکہ کو دنیا میں اس کی انسانیت دشمنی اور خاص طور پر پاکستان دشمنی کے حوالے سے پالیسی کو بے نقاب کرنے کے لئے اس کا یہی ایک اقدام کافی تھا ،جسے ہم نے دنیا کے سامنے پیش ہی نہیں کیا۔ شایدہم سمجھتے ہیں کہ اگر امریکہ کے خلاف زبان سے کوئی لفظ نکالا تو کہیں وہ ہماری زبان ہی نہ کاٹ دے، گردن ہی دبوچ نہ لے بلکہ پھانسی پر چڑھا نہ دے حالانکہ ایسا نہیں۔ اگر امریکہ کے پہلو میں واقع چھوٹا سا ملک کیوبا کتنی دہائیاں امریکہ سے کھلی دشمنی پال کر اب تک زندہ ہے تو ہمیں امریکہ کوئی کھا کر ختم نہیں کرنے والا۔ ہمیں اپنے ملک سے اخلاص کے ساتھ پالیسی بنا کر آگے بڑھانے کی ضرورت ہے اور کوئی ایسی وجہ نہیں کہ ہم امریکہ کا مقابلہ نہ کر سکیں۔ ہم ایک زمانہ امریکی ٹیکنالوجی کے مرہون منت رہے لیکن اب ہم نے اسے خیرباد کہہ کر اپنی دفاعی پالیسی بنائی ہے تو ہمیں بے شمار کامیابیاں ملی ہیں۔ ہمیں مزید ایسے اقدامات کرنا ہوں گے اور اپنے کسی شہری کے خلاف امریکی اقدام یا امریکی اعلان کو مکمل روند کر آگے بڑھنا ہو گا۔ اگر جارحانہ انداز اپنائیں گے تبھی بات بنے گی ورنہ حالات جوں کے توں ہی رہیں گے۔