تحریر: ڈاکٹر محمد عدنان ہر انسان نے زندگی میں کوئی نہ کوئی شوق پال رکھا ہے، کوئی کھانے کا شوقین ہے کوئی سیروتفریح کا تو کوئی کھیلوں کا شوقین ہوتا ہے، لیکن کچھ لوگوں نے جان لیوا شوق پال رکھے ہیں، جو سمجھ سے بالاتر ہیں، جہاں میں آپ کی توجہ ایک ایسے ہی جان لیوا شوق کی طرف متوجہ کروانا چاہتا ہوں،جس نے ہزاروں گھروں میں صف ماتم بچھا دیئے،ہزاروں جانوں کو لقمہ اجل بنا دیا،میری مراد ون ویلرز سے ہے۔
پاکستان میں کوئی خوشی کا تہوارہو،جشن آزادی یا سال نوکا آغازہو،نوجوان موٹرسائیکل لے کر سڑک پرنکل آتے ہیں،کرتب کی مشقیں شروع ہوجاتی ہیں،کوئی چارپانچ لوگوں کے ساتھ موٹرسائیکل پرسوارہوکر کرتب دکھاتا ہے توکوئی موٹرسائیکل پرلیٹ کر سیلفی لے رہا ہوتا ہے،کبھی آگے کا ٹائرہوامیں توکبھی پیچھے کا ٹائرہوا میں،روڈپرعام ٹریفک رواں دواں ہوتی ہے،اوریہ نوجوان اپنی مستی میں مست موٹرسائیکلوں پرکرتب کرتے اور اپنے دوستوں سے داد وصول کرتے نظرآتے ہیں،شائدکوئی تہوار ایسا گزرا ہو،جس پر ون ویلنگ سے حادثات نہ ہوئے ہوں،ستم ظریفی یا بدقسمتی سے اس موت کے کھیل میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے،سرکار ایک سو چوالیس لگا کرسوجاتی ہے،یہ منچلے نوجوان موٹرسائیکل لے کر روڈپراپنی جان سے تو کھلواڑکرتے ہی ہیں،روڈپر عام لوگوں کی جان کے لئے بھی خطرہ کا باعث بنتے ہیں،بہت سارے واقعات ایسے ہیں،جن میں ان نوجوانوں کوبچانے کے چکرمیں عام موٹرسائیکل سواراور گاڑیوں میں تصادم ہوجاتا ہے،جس نے نہ جانے کتنے لوگوں کی جان لے لی اور کتنے لوگ معذوری کی زندگی بسرکررہے ہیں،اس جان لیوا کھیل کو روکنے کے لئے ایک سوچوالیس کی ضرورت نہیں،ایک مکمل قانون سازی کی ضرورت ہے۔
گھر والوں اور والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں پرنظررکھیں انہیں سمجھائیں کہ زندگی اتنی سستی نہیں،کہ ایک ویڈیو یا سیلفی کے لئے قربان کردی جائے،سوشل میڈیا پر لوگوں کو ایسی تصاویر اور ویڈیو پرواہ واہ کرنے کی بجائے سمجھایا جائے ،پولیس کو ایسے منچلوں کیساتھ سختی سے نمٹنا چاہئے،حکومت کی طرف سے اس موت وزندگی کے کھیل کو روکنے کے لئے کوئی خاطرخواہ کوشش نہیں کی گئی،لہذا جب کبھی کوئی تہوار عیدومیلے کا موقع ہوتا ہے،تومن چلے کوئی موقع اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ،اور اپنا ون ویلنگ کا شوق ضرورپورا کرتے ہیں۔
ضرورت اس امرکی ہے کہ اس عمل سے نوجوانوں کوکیسے روکا جائے، انسانی جان سے قیمتی چیزاس دنیا میں کوئی نہیں،قوم کے نئے معمار اگر اسی طرح اپنی جانیں گنواتے رہے توکون اس کا ذمہ دار ہوگا؟، نوجوان بچے ،والدین یایہ معاشرہ یا قانون نافذکرنے والے ادارے؟، اس جان لیوا کھیل کو روکنے کے لئے ہرشخص کو اپنی سطح پر رہتے ہوئے کوشش کرنی ہوگی،متبادل میں بہت سے کھیل ایسے بھی ہیں جن سے نوجوان اپنا اپنا شوق پورا کرسکتے ہیں،لیکن ضرورت اس امرکی ہے کہ اس موت کے کھیل کو روکنے کے لئے انتہائی سخت اقدامات ہونے چاہئے،کہ آئندہ کوئی بھی نوجوان غلطی سے بھی ون ویلنگ کا تصوربھی نہ کرسکے،علاوہ ازیں والدین اور دیگر افرادبھی اس کے تدارک کا خاطر خواہ حل کریں کہ ایک صحت مند معاشرہ ہی صحت مند عوامل کا محرک ہو سکتا ہے۔