تحریر : انعام الحق پنجابی کی ایک مثال ہے’’کُتی چوراں نال رَلی ہوی اے‘‘۔ موجودہ دور میں یہ مثال پاکستانی سیاستدانوں نے ناکام کر دی ہے۔تحریک انصاف کے نوجوان ایک لمبے عرصہ سے یہ کہہ رہے تھے کہ ’’کُتی چوراں نال رَلی ہوی اے‘‘لیکن کُتی تو ناکام ہو گئی ہے، صرف ناکام نہیں بلکہ بُری طرح ناکام ہوگئی ہے۔اس پہرہ میں کُتی کون ہے اور چور کون یہ آپکی سوچ پر منحصر ہے۔
سب سے پہلے میں یہ واضح کر دوں کہ میں کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کا حامی نہیں ہوں بلکہ محض ایک غیر جانبدارطالب علم صحافی ہوں۔آگے چلتے ہیں،مسلم لیگ ﴿ن﴾بظاہر پاکستان کی قدیم ترین سیاسی جماعت ہے اور اس بات پر اس جماعت کے بڑے،چھوٹے اور چمچے سبھی غرور کرتے ہیں۔میاں نواز شریف ایک لمبے عرصہ سے یہ شور مچا رہے تھے کہ ہم تجربہ کار ہیں،عمران خان نیا نیا سیاست میں آیا ہے،ہم تیسری بار حکومت میں آئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن نواز شریف نے نئے نئے سیاست میں آنے والے عمران خان سے ایسی مار کھائی ہے جونہ صرف اُنہیں بلکہ اُنکی آنے والے نسل،حسن نواز اور حسین نواز کے بچے بھی بڑے ہوکر اپنے اپنے والدین سے پوچھیں گے کہ دادا ابو کو اس قدر ذلیل کس نے اور کیوں کیا تھا۔
پاکستان ایک سمندر ہے اور سمندر کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ گندگی اپنے اندر نہیں رہنے دیتا۔مسلم لیگ ﴿ن﴾ چوروں کی جماعت ہے اور پاکستان جیسے سمندر میں ان بحری قزاق نما سیاستدانوں کا کوئی کام نہیں۔انہیں تیسری بار اقتدار سے ہٹانے کا یہ مطلب نہ نکالا جائے کہ حکومت کے علاوہ باقی تمام عہدے یا شعبے غداروں سے بھرے ہوئے ہیں۔بلکہ اس نتیجہ پر غور کریں کہ ہر بار انہی کی حکومت کو کیوں گِرایا جاتا ہے؟ آمریت آتی ہے تو انہیں چور قرار دیتے ہوئے نکال دیا جاتا ہے۔جس جمہوریت پر انہیں مان تھا اُس نے بھی اس بار اِنہیں چور قرار دے دیا۔لہٰذا خرابی تو ان چوروں میں ہے ،باقی ادارے تو اپنی اپنی جگہ بظاہرٹھیک کام کر رہے ہیں۔
عمران خان سیاست میں نئے ہوں یا پُرانے جب سے وہ سیاست میں آئے ہیں اُنہوں نے ایک ایک پارٹی لیڈر کو چُن چُن کر آوٹ کیا ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلہ آنے کے بعدجرمنی میں مقیم میرے ایک دوست وحید صاحب کا فون آیا اور اسی موضوع پر بات شروع ہوئی موصوف کہنے لگے کہ عمران خان کی یہ صفت ماننا پڑے گی کہ اُنہوں نے اچھے فاسٹ بولر ہونے کا ثبوت دیا ہے،میں نے پوچھا وہ کیسے؟کہنے لگے کہ اچھا فاسٹ بولر ہمیشہ اپنی پسند کی پچ بناتا ہے۔اُس پچ پر بلابازی کرنے والا ہر کھلاڑی اُس بولر کیلئے اہم ہوتا ہے اور وہ بولر اپنی مرضی سے اُسے اپنی بنائی ہوئی پچ پر تگنی کا ناچ نچاتا ہے اور جب چاہتا ہے اُسے آوٹ کر دیتا ہے۔
عین اُسی طرح نواز شریف خود کو سیاست کا بہت بڑا اور تجربہ کار بلے باز کہتے تھے لیکن عمران خان نے اچھے اور تجربہ کار بولر ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی مرضی کیساتھ اُنہیں پچ پر گھما پھرا کر ایسا بولڈ کیا ہے کہ اب ہمیشہ کیلئے ہی بلے بازی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ لیکن فکر کرنے کی کوئی بات نہیں جہالت کے مارے لوگ بہت جلد یہ سب بھول جائیں گے اور ایک بار پھر نواز شریف کو وزیراعظم دیکھنا چاہیں گے۔یہ پاکستانی قوم کے غیرت مند ہونے کا بےغیرت ثبوت ہے۔ خیر مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کے بعد صدر پاکستان ممنون حُسین کا نام ٹی وی پر بولاگیا اور تصویر بھی دیکھائی گئی!!!