تحریر: چوہدری دلاور حسین انسان کے ایام حیات میں صحت، خوراک ،تعلیم اور امن کو خاص طور پر فوقیت حاصل ہے جن کے بغیر نہ تو زندگی سہل ہو کر بسر کی جا سکتی ہے اور نہ ہی ان کے بغیر چھٹکارا ممکن ہے۔ غذا کا تعلق چونکہ صحت کے ساتھ وابستہ ہے چنانچہ اس لئے تندرست و توانا اقوام روز بروز ترقی کی راہ پر گامزن رہتی ہیں اور دْنیا کے نقشے پر اْنہیں ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے ۔جن ممالک میں اشیاء خوردونوش ملاوٹ زدہ ہو اور عوام نہ چاہتے ہوئے بھی یہ میٹھا زہر ہضم کرنے پر مجبور ہو ۔ وہاں بزرگ، بچے وخواتین بیتے وقت کے ساتھ ساتھ خرابی صحت کا شکار رہتے ہیں اور وقت سے پہلے بیماریاں اْن کے اردگر گھیرا تنگ کر لیتی ہیں اور یوں چراغ جلد ہی ٹمٹمانے لگتا ہے۔
گذشتہ ادوار میں علم کی کمی و سادگی کے بل بوتے پر ریاست کے افراد بھوک مٹانے کی خاطر وہ سب کچھ نوش کر لیا کرتے تھے جس میں چٹ پٹے و چٹخارے دار اشیاء خاص طور پر سر فہرست ہوتی تھیں۔مثلاَ پیاز چپاتی ،اچار روٹی، بیسن پراٹھہ، آم و خربوزے کے ساتھ گھی لگا پراٹھہ ،دال مونگ و چھولے ،دہی بڑے، گول گپے وغیرہ ۔آج کے جدید دور میںکیمیکل جوسز، سوڈا واٹرمشروب،مضر صحت پان مصالحہ جات،چربی و بالصفاء پائوڈر و دودھ سے تیار کردہ آئسکریم، ناقص تیل سے تیار کردہ سموسے پکوڑے،جدید طرز کے ڈبوں میں پیک کیمیکل دودھ،ریڑھیوں پر بکنے والے سستے برفی گولے،گلی محلوں میں فروخت ہونے والی لیمن بوتلیں، شام کے اوقات میں ناقص مال سے تیار کردہ شامی و برگرز، ملاوٹ زدہ نمک، سرخ مرچ، کالی مرچ، چائے میں استعمال کی جانے والی پتی وغیرہ اس کے علاوہ اگر گوشت کا جائزہ لیا جائے تو قصاب کا ظلم بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔پانی سے لبریز گوشت جس میں گائے ، بھینس، بیل، بکری کا گوشت بھی ملاوٹ و ناقص صفائی ومکھیوں کی غلاظت کے ساتھ ہم سب کھانے پر مجبور ہیں۔
مرغی و مچھلی کے گوشت کا تو یہ عالم ہے کہ خریدار بیچارہ مہنگے دام ہونے کے باوجود جراثیم سے لبریز کھانے پر اکتفا کرتا ہے ۔اس ملاوٹ کا کیا کریں صاحب جس کے بل بوتے پر ہم پیٹ بھرنے پر مجبور ہیں۔ گذشتہ سالوں میں موسمی تازہ خوشبو دار سبزیاں و پھل دلوں کی تسکین کے ساتھ صحت کیلئے بھی دیرپا زودہضم غذا تصور کی جاتی تھی اور اسے جسمانی قوت کا خزانہ گردانا جاتا تھا۔یہ سبزیاں وپھل ٹوکریوںو لکڑی کی پیٹیوں میں پیک کئے جاتے تھے جن میں خشک گھاس و پھوس ان کو مضر اثرات سے محفوظ رکھتی تھی۔عموماً شہر بھر کے سبزی و پھل بازار وں میں بددیانتی و گراں فروشی اس تیزی سے عروج پا رہی ہے کہ تازہ سبزی و پھلوں میں گلے سڑے پھل و سبزیاں مکس کر کے نہ صرف دْکانوں پر سجائے جاتے ہیں اور عجلت میں کمال مہارت کے ساتھ چند پھلوں کے ساتھ اوپر نیچے گلے سڑے پھل جدید پرنٹنگ سے آراستہ شاپرز میں پیک کرکے گاہک کے حوالے کر دیے جاتے ہیں۔ گھر پہنچنے پر معلوم ہوتا ہے کہ چند تازہ پھلوں کے ساتھ کچھ گلے سڑے پھل بھی ڈال دیے گئے ہیں۔چنانچہ گاہک سوائے خون کے آنسو رونے کے اور کچھ نہیں کر سکتا۔یہی حال سبزیوں کے ساتھ کیا جا رہا ہے اوپر تازہ سبزی تو نیچے باسی شاپر میں ڈال کریا جدید ڈبوں میں پیک کر کے گاہک کو متاثر کرنے کے ساتھ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ان مضر صحت اشیاء کی خریداری میں صحت کے ساتھ سکون بھی گیا ۔پیسے کی اس دوڑ میں ہرسو ملاوٹ زدہ اشیاء نے ڈیرے ڈال لئے ہیںاور یوں صحت چابی والا کھلونا بن کر رہ گئی ہے۔
ان دو نمبر پراڈکٹس نے اپنا اثر اتنی تیزی سے قائم کیا ہے کہ کچھ بھی درست نہیں رہا۔صابن ، پائوڈر، کریمیں، شمپو، سرسوں کاتیل اور گھی بھی جدید ملاوٹی پیکنگ میں ہر جنرل سٹور و دْکان پر دستیاب ہے۔بھوک مٹانے کیلئے گندم کا خالص آٹابھی ناپید ہو کر رہ گیا ہے باسی ملاوٹ زدہ گندم اور اْس پر سونے پہ سہاگہ یہ کہ اس میں سے سوجی، میدہ نکال لیا جاتا ہے اور باقی بھوسہ عوام کیلئے چھوڑ دیا جاتا ہے ۔تندور شاپس پر فروخت ہونے والی گرما گرم روٹی خواہ وہ سادہ ہو یا خمیری چند منٹ بعد اپنی افادیت کھو کر بددیانتی کا منہ کھول دیتی ہے۔ ریڈی میڈ سالن جن میں سری پائے ، کڑاہی گوشت ، چنے ، کباب ، چائینز بریانی ملاوٹ کے ساتھ ساتھ صحت کی بربادی کا باعث ہیں۔اس ضمن میں مٹھائی و بیکری شاپس بھی کسی سے کم نہیں ہیں ۔ناقص دودھ و چربی سے تیار شدہ کیک ہر بیکری شاپ پر دستیاب ہیںعید کے پْر مسرت موقع پر انسانی صحت کے ساتھ فراغ دلی کے ساتھ کھیلا جاتا ہے ۔عموماً ڈبوں پر تاریخ اجراء و تاریخ اختتام کو باریک لکھائی میں پرنٹ کرایا جاتا ہے کہ لکھے موسیٰ پڑھے خود آکے مترادف۔جوکہ سراسر سنگین جرم و گھنائونا فعل ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے اردگرد جراثیم اس قدر تیزی سے گھیرائو کئے ہیں کہ اْن کا خاتمہ ممکن نظر نہیں آتا۔جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر اور حشرات الاارض کی بھرمار اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اچھی صحت ایک خواب بن کر رہ گئی ہے ۔ یوں تو مملکت خداداد پاکستان میںعوام الناس کی خدمت کیلئے سینکڑوں کی تعداد میں محکمہ جات فرائض منصبی سرانجام دے رہے ہیں۔ایسے میں خادم پنجاب نے عوامی مسائل کو صحت کے حوالے سے محسوس کرتے ہوئے محکمہ فوڈ اتھارٹی کا قیام ممکن بنایا ۔اس محکمہ کے قیام کا بنیادی مقصد عوام کو مضر صحت خوراک سے بچانا تھا۔محکمہ ھذا میں باقاعدہ طور پر ذمہ دار افسران و اہلکاران بھرتی کئے گئے تاکہ گنہگار پر گرفت تنگ کی جائے۔
دوسرے محکمہ جات کی طرح یہاں بھی قوانین مرتب کئے گئے اور ان قوانین پر عملدرآمد کو سختی کے ساتھ یقینی بنانے کیلئے تمام تر وسائل کو بروئے کار لایا گیا ۔جگہ جگہ چھپا مار ٹیموں نے اپنی کاروائی تیز کر دی اور قصوروار یا تو بددیانتی کو خیر باد کہنے پر مجبور ہو گئے یا پھر محکمہ کے اہلکاران کے ساتھ طاقت کا مقابلہ کرنے کیلئے سینہ سپر۔بالآخر یہاں بھی سیاسی آشیر باد اپنا رنگ دکھانے لگی اور انتظامیہ سفارشی پرچی کے سامنے بے بس نظر آنے لگی ۔ایک موبائل کال و پرچی وہ کچھ کرکے دکھانے پر مصر ہوئی جو پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔قانونی کاروائی کے راستے تنگ ہونے لگے اور مافیا پھر سے اپنا راج قائم کرنے پر کامیاب ۔راقم یہ رقم کرنے پر مجبور ہے کہ کیا ادارے اس لئے بنائے جاتے ہیں کہ وہ گہنگار کو سزا دینے کی بجائے پریشر کے سامنے دم توڑ جائیں یا چند سکوں کے عوض ادارہ کے قوانین کو سبوتاژ کر دیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بحیثیت عوام ہماری یہ اوّلین ذمہ داری ہے کہ ہم بددیانتی کی روک تھام میں اپنا مثبت کردار بھرپور طریقے سے ادا کریں اور ملک و قوم کی ترقی پر کبھی آنچ نہ آنے دیں۔کیونکہ صحتمند ذہین اچھی سوچ کو جنم دیتا ہے اور اچھائی فلاح کا ایک روشن باب ہے ۔جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
Ch. Dilawar Hussain
تحریر: چوہدری دلاور حسین dilawarhussain29@gmail.com 0323-6254646, 0336-7461234