تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری آخر وہی ہوا جس کا امکان قوی تھا دفعات 62/63 میاں نواز شریف کے ہی سرپرست اعلیٰ جناب سابق صدر ضیاء الحق صاحب نے آئین میں ڈال دی تھیںاور عدالتوں سمیت اس وقت کی مجلس شوریٰ نے جس کے سپیکرخواجہ آصف کے والد محترم جناب خواجہ صفدر تھے نے بھی اسے من وعن قبول کرلیا تھا اور ان پر مہرِتصدیق ثبت کردی تھی اب جو کسی کے لیے گڑھا کھودتا ہے لازماً وہ اس میں خود ہی گرتا ہے ان دفعات کے مندر جات تو بہت اعلیٰ ہیں یہ دفعات تقاضا کرتی ہیں کے منتخب ہونے والے افراد ایماندار اور دیانتدار ہوں تاکہ عوامی خزانہ کا احسن طریق پر استعمال ہواور کوئی خیانت نہ ہوسکے ایسے نمائندگان سچے ہوں جھوٹے نہ ہوں اور اپنے وعدوں کی پاسداری کرنے والے ہوں منتخب نمائندہ اچھے کردار کا حامل ہو اسلامی احکام سے انحراف کی وجہ سے مشہور نہ ہوپارسا بھی ہواور کسی قسم کی اخلاقی پستی کا شکار نہ ہوحکمران جماعتیںو دیگر بیشتر سیاسی گروہ ان دفعات کا تحفظ کرتے رہے ہیں اب جب کہ ہمارے وزیر اعظم انہی دفعات کے تحت نااہل قرار دے دیے گئے ہیں تو اب سبھی کے لیے یہ دفعات خطرے کا سرخ نشان بن چکی ہیں۔عمران ہو یا زرداری یا الطاف حسین ومولانا فضل الرحمٰن سبھی کواب ان دفعات میں اپنی بھی”سیاسی موت “چھلکتی نظر آرہی ہے۔
اب تو یہاں الٹا ان دفعات کے خاتمے کی باتیںعام سیاستدان بھی کرنے لگے ہیںتاکہ جھوٹ خیانت دھوکہ بازی وغیرہ پر کسی کو نااہل ہی نہ کیا جاسکے لیگی وزراء تک کہتے سنے گئے ہیں کہ ان اسلامی شقوں کو جو کہ ضیاء الحق کے دور میں آئین میں داخل ہوگئی تھیں کو ہم نے ختم نہ کرکے غلطی کی ہے اور اب ان کا پہلا شکار وزیر اعظم ہوگیا ہے گذشتہ پی پی حکومت کے دوران اٹھارویں ترمیم کے موقع پر آئین میں درجنوں ترامیم کی گئیں مگر سیاسی جماعتوں کاآرٹیکل 62اور63کو نا چھیڑنے پر اتفاق رہا مگر اب گذشتہ دوتین سال سے انتخابی اصلاحات کے لیے بنائی گئی پارلیمانی کمیٹی میں ان اسلامی شقوں پر بات ہوئی اور پی پی پی نے ان شقوں کے خاتمے کا مطالبہ کیان لیگ اس وقت بھی اس کے حق میں نہ تھی جب کہ پی ٹی آئی ابتدا ء میں تو پی پی پی کا ساتھ دیتی رہی لیکن بعد میں عمران خان نے بیان دے ڈالا کہ آرٹیکل 62اور63کی ان شقوں کے خاتمہ کی وہ مخالفت کریں گے چاہے اس کے نتیجہ میں ان کی اپنی ہی نااہلی کیوں نہ ہوجائے عمران خان کے اس بیان سے آئین میں موجود ان شقوں کے خاتمے کی کوشش کرنے والوں کو پسپائی اختیار کرنا پڑی وزیر اعظم کی نااہلی کے بعد یہ شقیں” غیر محفوظ”ہوگئی ہیں۔پانامہ کے فیصلہ کے قبل پی پی پی کی شقوں کے خاتمے کی آواز میں ن لیگ بھی اپنی آواز ملا رہی تھی مگر پانامہ کے فیصلہ میں ان شقوں کی موجودگی نے نواز شریف کو نااہل قرار دے ڈالا۔
اب چونکہ زرداری عمران خان جہانگیر ترین وغیرہ کے مقدمات بھی زیر سماعت ہیں تو نواز شریف کی نااہلی کے بعد اب ان شقوں کو نکالنا مشکل ترین ہے کہ ن لیگ اب ان شقوں کا دوسرے لیڈروں پر بھی اطلاق چاہتی ہے اب رسم چل پڑے گی ہر دوسرا پارلیمنٹرین شکایات ڈھونڈھے گابالخصوص جو انتخابات ہارے تھے کہ کسی مخالف کے جھوٹ یا غلط بیانی کو پکڑیں اور اس میں اسے پھنسائیں کہ ریت ہی ایسی کی روایت پڑ چکی ہے کہ اب کوئی نہ سر اٹھا کر چلے در اصل حکمران قبل ازیں پارلیمنٹ کے اندر بھی کوئی میکنزم اور گائیڈ لائنز ہی نہ تیار کرسکے کہ الیکشن کمیشن کو ہی اس بارے میں کوئی فارمولہ بھیج دیاجاتا جس کے مطابق بہترین کردار کے حامل افراد کو ہی پارلیمنٹ میں پہنچنے کا موقع مل جاتااب “ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے” کہ ہمارا لیڈر نااہل ہوچکا ہے تو دیگر سبھی بھی نااہل ہوں تو ہی ن لیگیوں کو مزا آئے گا وگرنہ قبل ازیں تو” تو مرا ملاں بگو ۔من ترا حاجی بگوئم”کی آوازیں گونجا کرتی تھیں۔
ایک دوسری احسن ترین تجویز کے مطابق اگر پانچ ایکڑ زمین سے زائد ملکیتی افراد یا جن کے پچاس لاکھ روپے بنک میں جمع ہوں یا اتنی رقم کا کاروبار کر رہا ہوان سبھی پر انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی ہو کسی امیدوار کو کوئی ایک روپیہ بھی انتخابات میں خرچ کرنے کی اجازت نہ ہوحکومت ہی سب امیدواروں کے مشترکہ پمفلٹ منشورپوسٹر پبلسٹی وغیرہ کے تمام اخراجات سمیت مشترکہ جلسوں کا بھی اہتمام کرے اور پولنگ والے دن ووٹروں کو لانے اور واپس لے جانے کا انتظام بھی سنبھال لے تو تبھی اعلیٰ کردار کے امیدواران منتخب ہوسکتے ہیںاور وہ خزانہ کو لوٹنے اور عوام کا خون چوسنے سے باز رہ سکیں گے وگرنہ جو پچاس لاکھ روپوں کا خرچہ کاغذات میں اندراج کرکے جھوٹا اور فرضی الیکشن کمیشن کو جمع کرواتا ہے اور خود پچاس کروڑ تک کا خرچہ انتخابات جیتنے کے لیے کرڈالتا ہے لازمی امر ہے کہ وہ ممبر منتخب ہوتے ہی لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کرکے اپنے پیسے ہی پورے نہیں کریگا بلکہ آئندہ انتخابات کے لیے بھی اتناہی سرمایہ جمع جائز ناجائز طریقوں سے کرنا اپنا “فرض اولین ” سمجھ لیتا ہے ۔ منتخب ممبران سے کرپشن کے خاتمے کی اس کے علاوہ کوئی صورت ہوہی نہیں سکتی وما علینا الا البلاغ۔