تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی جنت نظیر وادی کے ہوش رُبا حسن نے مجھے اپنے سحر میں بُری طرح جکڑ لیا تھا ‘میرے چاروں طرف جادو نگار منا ظر کاسیلاب اُمڈ آیا تھا ‘ہر گزرتے منظر کے ساتھ نشے سرور اور سر شاری کی نئی لذت سے ہمکنار ہو رہا تھا پھر ایسا منظر سامنے آیا جب عظیم خالق کی جلو ہ گری نقطہ عروج پر پہنچ گئی ‘ہما رے سامنے سر سبز و شاداب پہاڑوں کے درمیان رنگ برنگے پو دوں ‘پھو لوں اور پانی سے لبالب جھیل آگئی ‘میں نے گا ڑی روکنے کا اشارہ کیا اور چھلانگ لگا کر گا ڑی سے نیچے اُتر گیا اور دوڑ کر جھیل کنارے پہنچ گیا ۔ یخ ٹھنڈی ہوا کے جھو نکے میرے چہرے سے ٹکرانے لگے اور میں حالت جذب میں مہبوت ہو کر وادی کے حسن کا قطرہ قطرہ انجوائے کر نے لگا سامنے جھیل کا یخ پانی ‘دور تک دائیں با ئیں لہراتی سر سبز و شاداب پہا ڑیاں ‘کہیں کہیں پرا نی بر ف کی ڈھیریاں ‘آسمان پر سورج اور با دلوں کی آنکھ مچولی اور پھر میں جھیل کنارے پتھر پر بیٹھ کر وادی کے منظر کا حصہ بن گیا ‘ما حول میں یخ ٹھنڈی ہوا ئوں کے ساتھ شگفتگی کی ٹھنڈی دو دھیا پھوا ر بر س رہی تھی اور میں اندر تک شرابور ہو رہا تھا ‘کا ش میرا تعلق کسی خا نہ بدوش قبیلے سے ہو تا تو ساری عمر اِسی وادی میں گزار دیتا میں سال پہلے بھی یہاں ہیلی فیکس بر طانیہ آچکا تھا اور آج پھر اِس وادی کے حسن لا زوال سے خوبصورتی کی بھیک لینے آیا تھا۔
میں نے بر طانیہ آتے ہی اپنے میزبان نور احمد سے کہا تھا کہ مجھے پھر اُسی جنت نظیر وادی میں لے کر جا تا تو اُس نے شرارتی نظروں سے میری طرف دیکھا اور کہا اِس با ر اُس وادی سے آگے بھی ہم نے جانا ہے جہاں آپ اِس وادی کو بھی بھول جائیں گے جو بعد میں واقعی ہی سچ نکلا ‘میں کا فی دیر تک اپنی روح اور نظروں کو وادی کے لا زوال حسن سے سیراب کر تا رہا جب ہلکی پھلکی با رش تیز بار ش میں بدلنے لگی تو ہم گر م آرام دہ گا ڑی کی طرف دوڑے ‘اب ہم مانچسٹر سے سکاٹ لینڈ کی طرف روانہ ہو ئے جو لو گ مانچسٹر سے سکاٹ لینڈ کا سفر کر چلے ہیں وہ یقینا میری با ت کی تا ئید کر یں گے کہ با ئی روڈ یہ دنیا کی خو بصورت تر ین شاہراہ ہے جہاں ہرگزرتا منظر آپ کو پہلا منظر بھلا دیتا آپ کی نظر نے اِس سے پہلے ایسے جا دو نگا ر منا ظر نہیں دیکھے ہونگے۔
تارکول کی ہموار کشادہ سڑک پر جب آپ برق رفتاری سے سفر کر تے ہیں تو آپ کے دائیں با ئیں سر سبز شاداب بل کھا تی پہا ڑیوں ‘اُن وادی نما پہا ڑیوں پر دور دراز تک بھیڑ بکریاں گا ئے گھو ڑے اور دوسرے جانور چرتے ہو ئے ‘آسمان پر سورج اور با دلوں کی آنکھ مچولی ‘کہیں دھوپ ‘کہیں چھا ئوں ‘چاروں طرف قوس قزح کی طرح بکھر ے منا ظر آپ کو جنت کی یاد دلا دیتے ہیں کہ اگر یہ منا ظر اتنے خو بصورت ہیں تو جنت کیسی ہو گی ‘دوران سفر قیام و طعام پر گرما گر م کا فی کے مگ فریش پیزا اور لذیز فش بر گر آپ کے سفر کو بھی یا د گار بنا دیتے ہیں اور پھر جب بر ق رفتا ری سے دوڑتی گر م آرا م دہ گا ڑی میں گر م کا فی کے گھو نٹ حلق میں انڈیلتے ہو ئے آپ خدا کے عظیم ترین منا ظرکا لطف اٹھاتے ہیں تو بڑے سے بڑے منکرخدا کو بھی خدا کی خدائی کااقرار کرنا پڑتا ہے پھر جب خدا کی یا د شدت سے آنا شروع ہو ئی تو میں نے نو ر احمد سے کہا سو رة رحمن کی تلا وت لگا دو جس میں خالق کائنات بار بار فرماتے ہیں اور تم میری کو ن کو ن سی نعمت کو ٹھکرائو گے میرے چاروں طر ف نیلے پیلے سرخ پھو لوں کی برسات تھی ‘فطرت حسن و جما ل کی انتہا پر پہنچ کر چیخ چیخ کر خدا کے وجود کا اظہا ر کر رہی تھی ‘فطرت کتنی خو بصورت ہے اُس کا حقیقی حسن حجا بات سے نکل کر انسانوں کو دعوت نظا رہ دے رہا تھا ‘چار سو حسن بکھر اپڑا تھا ‘نا چتے مسکراتے لہکتے پھو ل ‘گنگنا تی ہوا ئیں ‘آسمان پر آنکھ مچولی کھیلتی مست گھٹا ئیں ‘گا تی ندیاں ‘سنہری دھوپ ‘چاروں طرف فطرت کے نغمے ہی نغمے ‘جلو ے ہی جلو ے ‘یوں لگ رہا تھا۔
وادی نے قوس و قزح سے رنگینی اور کہکشاں سے نو ر لے کر اپنے حسن کو آگ لگا دی تھی کہ نظر نہ ٹہر سکے اگر ہم سائنسدانوں سے پو چھیں جو یہ کہتے ہیں کہ زمین سورج کا دہکتا ہوا حصہ بھی تو اُن کے پاس اِس سوال کا جواب نہیں کہ جلے ہو ئے سیاہ پہا ڑوں سے دلکش پھو ل کیسے پھو ٹتے ہیں جب زمین سورج کا حصہ تھی تو یہ پھول کیسے بھڑکتے ہو ئے سورج میں موجود تھے پا نچ کر وڑ سینٹی گریڈ کھولتے ہو ئے جہنم میں پھو لوں کے خلیے کیسے زندہ رہ گئے اِس راز کا جواب کسی منکر خدا کے پا س نہیں ہے بس خدا نے زندہ رکھا ۔ہم بر ق رفتا ری سے ایڈن برا کی طرف بڑھ رہے تھے شہر کے با ہر ہی میرے چاہنے والے ہمیں مل گئے جنہوں نے ہمیں آگے سکاٹ لینڈ کے خوبصورت ترین علا قے میں لے کر جا نا تھا ‘شفیق میزبان ہما رے لیے لبنا نی ریسٹو رنٹ سے لذیذ ترین کباب اور خستہ نرم و ملا ئم روٹیاں ‘جو سز کے ساتھ لا ئے ہو ئے تھے ہم کسی ہو ٹل میں رکھ کر کھا نا کھاتے تو منزل تک نہ پہنچ سکتے ہم نے گا ڑی میں ہی لبنان کے کبابوں اور خستہ روٹیوں کو ادھیڑنا شروع کر دیا ‘گا ڑی میںکبا بوں کی اشتہا ر انگیز خو شبو نے ہما ری بھو ک کو اور بھی بڑھا دیا تھا اب ہما را کا رواں سکا ٹ لینڈ کے سب سے زرخیز خو بصورت علاقے لوک لومڈ کی طرف دوڑ رہا تھا ہما رے آگے دوڑنے والے میزبان کی کو شش تھی کہ ہم اندھیرے سے پہلے اُس ہو شربا وادی تک پہنچ سکیں ‘تھو ڑی دیر بعد ہی شہر کی عما رات کم ہو نا شروع ہو گئیں اور فطری گھنے جنگل اور نظا روں کی آمد شروع ہو گئی۔
جب ہم دریا کے پل سے گزرے تو نیچے اور اطراف میں خوبصورتی ہی خو بصورتی جو آنکھوں کو خیرہ کر تی جا رہی تھی اب ہم گھنے خو بصورت پراسرار جنگل سے گزر رہے تھے آخر ہم کیمرون ہا ئوس پہنچ گئے جو لو گ کیمرون ہا ئوس ہو ٹل جا چکے ہیں یا ٹہر چکے ہیں وہ اُس کی افادیت سے اچھی طرح واقف ہیں دنیا جہاں کے امیر ترین لو گ اور ملکوں کے حکمران یہاں ٹہرتے ہیں ‘سر سبز و شاداب جنگل کے بیچوں بیچ شاندار ہوٹل رائل عما رت کے سامنے بڑے بڑے سر سبز و شاداب لان جو پھولوں سے بھرے ہو ئے ہزاروں سال پرانے درختوں نے ماحول میں پراسراریت کی چاشنی بھری ہو ئی اور سامنے خو بصورت جھیل دوسری طرف سبز پہا ڑیاں جن کے درمیان سے آتی ہو ئی جھیل ‘پانی پر سفید اور خاکستری آبی پرندوں کی قطا ریں ‘کنارے پر سفید رنگ کے جہاز جو پانی کی سطح پر تیر کر پھر ہوا میں اڑ جاتے ہیں ہم بھی جا کر ایک سفید رنگ کے چھو ٹے جہاز میں بیٹھ گئے ہم تقریبا دس لو گ تھے ‘جہاز نے سٹا رٹ لیا پانی پر کشتی کی طرح تیرنا شروع کر دیا اور پھر رفتا ر تیز سے تیز ہو تی گئی اور ہم جھٹکے سے پا نی کی سطح چھو ڑ کر ہوائوں کے مسافر بن گئے اب جہاز خا ص بلندی پر آکر اڑ رہا تھا ہما رے چاروں طرف آبی پرندے قطاروں میں اڑ رہے تھے۔
ہم بھی اُن پرندوں کی طرح خو بصورت ترین جھیل وادی جنگل پہا ڑی پر اڑ رہے تھے پا ئلٹ ہمیں وادی کے دلکش ترین حصوں کی سیر کر رہا تھا اور ہم زندگی کے خو بصورت تجربے سے گزر رہے تھے ‘ما ہر پا ئلٹ نے ہمیں اچھی طرح پرواز کا لطف دیا سیر کرا کر آخر وہ پھر جھیل کے پا نی پر آکر اتر گیا اب ہما رے میزبان ہمیں جھیل کے سب سے خوبصورت حصے کی طرف لے جا رہے تھے کچھ ہی دیر بعد ہم ایک جگہ پہنچے وسیع و عریض سر سبز میدانوں کے بعد ہم جھیل کے کنا رے پر پہنچے یہاں پر فطرت اپنی تما م تر دل کشیوں کے ساتھ جلوہ گر تھی میں کنا رے بیٹھ گیا دوستوں سے کہا مجھے کوئی نہ بلا ئے وہ آگے چلے گئے ‘بچے پا نی پر پتھر پھینکنے لگے اچانک میری ناک سے مچھلی بھو ننے کی خو شبو ٹکرائی دیکھا دو بو ڑھے گو رے با ر بی کیومچھلی بھو ن رہے ہیں مچھلی کی خوشبو مجھے اُن تک کھینچ لے گئی ‘گو رے مسکرائے میں نے وادی جھیل پہا ڑی کی طرف اشارہ کیا ‘یہ خو بصورتی کیسی ہے تو گو رے کی آنکھوں کی مخملی جھیل اور کہتے ہو ئے مسکرایا اور بو لا اِس حسن کو دیکھ کر خدا کی یاد آتی ہے خالق کا احساس ہو تا ہے گو ‘رے نے بھُنی ہو ئی مچھلی میری طرف بڑھا ئی میں سحر انگیز وادی میں بیٹھ کر اپنی آنکھوں اور پیٹ کو خدا کی نعمتوں سے سیراب کر نے لگا۔