تحریر: سید انور محمود جمعیت علمائے اسلام(ف) اور تحریک انصاف کی آپس میں مخالفت کی کوئی حد نہیں، مولانافضل الرحمان کی ایک عرصے سے یہ خواہش رہی ہے کہ وہ کسی بھی طرح صوبہ خیبر پختونخواہ میں اپنی حکومت قایم کرلیں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ اپنے مفادات حاصل کرسکیں جیسے انہوں نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں ایم ایم ائے کی حکومت کے زریعے حاصل کیے تھے، لیکن 2013 کے انتخابات میں پہلی مرتبہ تحریک انصاف ایک بڑی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی اور فضل الرحمان کی صوبہ خیبر پختونخواہ میں حکومت بنانے کی حسرت پوری نہ ہوسکی، حالانکہ انہوں نے کوشش کی کہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں جمعیت علمائے اسلام(ف) اور مسلم لیگ (ن) کی مشترکہ حکومت قایم کرلیں لیکن نواز شریف اس کے لیے تیار نہ ہوئے۔ بعد میں وہ نواز شریف کے اتحادی بن گے اور بھرپور مفادات حاصل کرتے رہے۔ اب پاناما کیس میں نواز شریف کے نااہل ہوجانے کے فیصلے پرفضل الرحمان کا کہنا ہے کہ ہمیں عدالت سے انصاف نہیں تحریک انصاف ملی ہے، بقول انکے نوا زشریف کی نااہلی کا فیصلہ دنیا کے کسی بھی ملک کی عدالت میں نظیر کے طور پر پیش نہیں کیا جائے گا بالکل اسی طرح جیسے ذوالفقار علی بھٹو کاکیس تھا۔ شرم آنی چاہیے فضل الرحمان کو کہ ایک سند یافتہ کرپٹ انسان کےلیے وہ اس بھٹو کی مثال دئے رہے ہیں جس کے بدترین دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو پرکبھی بھی ایک پیسے کی کرپشن کا الزام کوئی نہیں لگاسکا ، جبکہ نواز شریف تو اربوں روپوں کی کرپشن کی کیچڑ میں دھنسے ہوئے ہیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعدسے تو مولانافضل الرحمان اس قدر غمگین ہیں کہ بقول انکے وہ شام غریباں منارہے ہیں حالانکہ شام غریباں وہ مناتے ہیں جو حق پر اور سچے ہوتے ہیں۔ جبکہ فضل الرحمان ایک خود غرض، موقعہ پرست اور انتہائی چالاک سیاستدان ہیں۔ حکومت کسی کی بھی ہو فضل الرحمان کو حکومت سے اپنا حصہ لینا آتا ہے، جس طرح مچھلی بغیر پانی کے زندہ نہیں رہتی اسی طرح فضل الرحمان کا بغیر اقتدار گذاراممکن نہیں۔ حکومت چاہے فوجی ہو یا جمہوری فضل الرحمان آپکو حکومت میں ملینگے۔ مرحوم معین اختر نے کہا تھا کہ’’فضل الرحمان ہر گذشتہ حکومت کی بیوہ، موجودہ حکومت کی منکوحہ اور آنے والی حکومت کی منگیتر ہوتے ہیں‘‘۔نواز شریف کی نااہلی پر عمران خان کا نام لیے بغیرچالاک فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ یہ وہ موقع ہوتا ہے جب سب فقیر بن جاتے ہیں کہتے ہیں کہ ہماری بددعا سے ہوا ہے، حالانکہ سب سے زیادہ پریشانی نوازشریف سے امریکہ اور بھارت کو تھی جو نہیں چاہتے کہ پاکستان چائنا پر اپنا اقتصادی انحصار کرئےاس بات پر امریکہ اور بھارت ایک ہوگئے اور ان کی چاہت اور بددعائیں یہ ہوں گی کہ کسی طرح پاکستان کی حکومت اللہ کے عتاب میں آجائے اور اس سے ہماری جان چھوٹ جائے۔میرا خیال ہے کہ ان دونوں ممالک کو نواز شریف کی حکومت کو بددعایں دینے کی قطعی ضرورت نہیں تھی،نواز شریف کو جن کی بددعایں لگیں ہیں وہ پریشان حال غریب پاکستانی عوام ہیں۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ آف شور کمپنی قانونی چیز ہے کوئی غیر قانونی چیز نہیں، نوا ز شریف کی نااہلی کا فیصلہ آف شور کمپنی یا پاناما لیکس کی وجہ سے نہیں ہوا ہے فیصلے میں تو یہ کہا گیا ہے چونکہ آپ نے دبئی کی کمپنی سے اپنی تنخواہ نہیں لی تو یہ آپ کا اثاثہ تھا جو آپ نے ڈکلیئرنہیں کیا تھا ، عدالت نے نوا زشریف کے تنخواہ نہ وصول کرنے کے معاملے پر وکلاء سے کوئی رہنمائی نہیں لی ۔ پاناما کیس کا کرپشن سےکوئی تعلق نہیں بلکہ یہ سیاسی عدم استحکام پھیلانے کی سازش ہے۔یہ ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے ا ستعمال ہورہا ہے ۔گزشتہ چار سال میں کرپشن کا کوئی اسکینڈل سامنے نہیں آیا۔ نواز شریف کا اقتدار میں ہونا یا نہ ہونا ہمارا مسئلہ نہیں۔ ہمیں قومی مفادات کو سامنے رکھ کر اپنی پالیسیاں بنانی ہوں گی۔سپریم کورٹ کے فیصلے سے قبل فضل الرحمن نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو مشورہ دیا تھا کہ وہ ڈٹ جائیں اورکسی صورت استعفیٰ نہ دیں۔فیصلے کوئی اور کررہاہے،عدالتی مارشل لاءکی باتیں ہورہی ہیں۔
مولانا فضل الرحمان کے ان بیانات کے جواب میں تحریک انصاف کے رہنما نعیم الحق کا کہنا ہے کہ فضل الرحمان کی جانب سے قومی مفادات پر سوداگری کی تازہ ترین کوشش نئی نہیں، ان کی اصولی سیاست ’رقم‘ اور ’مفاد‘ کے گرد گھومتی ہے۔ نعیم الحق کا کہنا تھا کہ فضل الرحمان پچھلے دور حکومت میں آصف زرداری سے اور آج نواز شریف سے اپناحصہ وصول کررہے ہیں، نواز شریف کے زوال کا حقیقی وبال فضل الرحمان پر بھی ضرور آئے گا۔ نواز شریف جن پر کرپشن کے الزامات چل رہے تھے اس موقعہ سے بھی فضل الرحمان نے پورا پورا فائدہ اٹھایا اوراپنے بھائی مولانا ضیاء الرحمان کو نواز شریف کے زریعے گریڈ 18سے گریڈ 20 میں ترقی دلوالی ۔ 2013 کے انتخابات اور نئی حکومت کے قیام کے سات ماہ کے طویل انتظار کے بعد سابق وزیراعظم نواز شریف نے فضل الرحمان کو کشمیر کمیٹی کا چیرمین بنایا اوراس عہدے کو وفاقی وزیر کے برابر درجہ دیا گیا۔ کشمیر کمیٹی کے چیرمین کی حیثیت میں فضل الرحمان کو ایک وزیر کے برابر مراعات ملتی ہیں۔ فضل الرحمان کی جانب سے کشمیر کے معاملے میں ہمیشہ عدم دلچسپی کامظاہرہ کیا گیا اور اب تک صرف تین اجلاس بلائے گئے۔ 2013 سے آج 2017 تک کشمیر کمیٹی سب سے مہنگی کمیٹی ثابت ہو ئی ہے جس کے صرف تین اجلاس پر 18کروڑ روپے کی لاگت آئی ہے یعنی ایک اجلاس 6 کروڑ روپے کا۔
اگر ہم سابق وزیراعظم نواز شریف کی کابینہ یا انکے ساتھ جو لوگ کام کررہے تھے ان پرنظر ڈالیں توان میں پہلے وہ ہیں جو نواز شریف کے رشتہ دار ہیں پھر وہ ہیں جو نواز شریف کے دوستوں میں سے ہیں، اور آخر میں وہ ہیں جو انکے بدترین مخالف پرویز مشرف کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں، جمیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ فضل الرحمان ان میں سے ایک ہیں، جن کے ایک ساتھی اکرم خان درانی جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں صوبہ سرحد( موجودہ صوبہ خیبر پختونخوا) کے وزیر اعلی تھے اور اب نواز شریف کی کابینہ کا حصہ تھے۔ کراچی میں ہونے والی ایک تقریب میں فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ کرپش لوٹ کسوٹ سے پاک قیادت صرف جمعیت علماء اسلام ہی ملک کو دے سکتی ہے اگر جے یو آئی حکومت میں آئی تو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے کرپشن کی لعنت سے قوم اور ملک چھٹکارا حاصل ہوجائیگا۔ جبکہ عام لوگ پوچھتے ہیں کہ فضل الرحمان کا بظاہر کوئی زریعہ معاش نہیں ہے، پھر بھی پجیرومیں گھومتے ہیں،اچھا کھاتے ہیں اور اچھا پہنتے ہیں، کیسے؟ان لوگوں کےلیےجواب یہ ہے کہ فضل الرحمان سیاست میں اپنے مفادات کےلیے اچھی توڑ جوڑ کے ماہر ہیں اور مذہبی چورن بیچنے کے اچھے دوکاندار ہیں۔ویسے آجکل مولانا فضل الرحمان پاناما کیس میں نااہل ہونے والے نواز شریف کی مظلومیت بیچ رہے ہیں کیونکہ نواز شریف معاوضہ اچھا دیتے ہیں۔