تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری پاکستان کی ستر فیصد آبادی کسانوں پر مشتمل ہے اور کاشتکاری کرتی ہے حکومت نے سو ارب روپے کسانوں کو قرضے دینے کی سکیم چلارکھی ہے فیصل آباد جیسے بڑے ڈویژن میں صرف آج تک سات ہزار کسانوں کو قرضے فراہم کیے گئے ہیں جو کہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ ہیں جتنی رقم ہر کسان کو دی جا رہی ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر بھی نہ ہے ۔ایسی رقوم مفلوک الحال کسان بھلا و اپس کیسے کریں گے؟وہ اپنی رت جگوں کی محنتوں سے جو فصلیں پیدا کرتے ہیں انھیں سود خور نودولتیے سرمایہ دار یا آڑھتی صاحبان اونے پونے داموں درمیان میں سے ہی اچک لیتے ہیںاور اس کی محنت تک بھی اس کے پلے نہیں پڑتی۔
ملک بھر کے چودہ کروڑ کسانوں کو سو ارب میں سے صرف714روپے فی کس ہی مل سکتے ہیں جب کہ سکیم میں فی ایکڑ پچاس ہزار روپے تک کا قرضہ دیا جانا ہے اس طرح اگر ہر کسان کو کم ازکم پچاس ہزار روپے ہی دیے جائیںتو یہ کل دولاکھ افراد تک پہنچیں گے جب کہ ایسا بھی نہیں ہورہایعنی کل کسانوں کا 0.143فیصد بھی نہ ہوا ۔اور یہ قرضہ جات نمبرداروں پٹواریوں گرداوروں اور چکوک کے ایسے بااثر افراد کے ذریعے ہی حاصل کیسے جا سکتے ہیں جو کہ سرکاری درباری ہوں اور حکومتی پارٹی کے کارکن ہوںیا پھر حکومتی ایم این اے ،ایم پی اے کی سفارش ضروری ہے۔ویسے تو نہروں کی ٹیلوں پر پانی بالکل نہیں پہنچتاکہ بااثر جاگیردار اور وڈیرے محکمہ انہار کے اہلکاروں سے میل ملاپ کرکے اور چمک کے ذریعے موگے توڑ کر یا پھر پائپ لگا کر پانی چوری کرتے ہیںتو نہروں کے آخری پانچ سات میل فصلوں کو پانی کہاں سے مل سکتا ہے ؟
ٹیوب ویلوں کے لیے مہنگی ترین بجلی کسانوں کو وارے نہیں کھاتی اس طرح ہمارا ملک زرعی ہونے کے باوجود اس کے کسان بیچارے گھمبیر مسائل کا شکار ہیںہر کسان نے بنکوں کے قرضے اور آڑھتیوں کا ادھار دینا ہوتا ہے کہ وہاں سے جراثیم کش ادویات اور بیج وغیرہ لے رکھا ہوتا ہے اس لیے اس کی کمر سیدھی ہوہی نہیں سکتی وہ دن رات کولہو کے بیل کی طرح کام کرنے پر مجبور محض ہے فصلوں کی کاشت برداشت اور جانوروں کے چارے وغیرہ کے لیے اور وقت پر گائے بھینسوں سے دودھ حاصل کرتے کرتے اس کا ایک لمحہ بھی فارغ نہیں ہوتاکسی کی فوتیدگی یا شادی بیاہ پر جانا پڑجائے تو اس کے لیے ایک مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے اس کے باوجود بھی اگر کسان احتجاج کریں تو کسی قسم کی شنوائی کیے جانے کے بجائے ان پر لاٹھی چارج آنسو گیس کی شیلنگ اور گولیوں کی بوچھاڑ کی جائے اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت انہیں گرفتار کرکے جیلوں میں ٹھونس دیا جائے تو یہ کہاں کا انصاف ہے؟ ان اوقات میں اس کی فصلوں کی نگہداشت اور جانوروں کے چارے و خوارک کا کیسے انتظام ہوگا ؟کسانوں کی سخت محنت و مشقت سے پیدا کی گئی فصلوں کو سنبھالنے کا ہمارے ملک میں کوئی انتظام نہیںگندم تک محکمہ خوراک والے خریدتے وقت بوری کا 5کلو سے بھی زائد تک کا وزن زیادہ تول کر لیتے ہیں تبھی گندم سینٹرزگندم کی بوریاں خریدتے ہیں عام کسانوں کی تو وہاں تک پہنچ ہی نہیں ہوتی۔
وزیر اعلیٰ نے لاکھ کوششیں کر دیکھیں مگر آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہوتو کیا حاصل ہوسکتا ہے ؟ہر ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر نے 9,10کروڑوپے رشوتوں کے ذریعے اکٹھے کرنا ہوتے ہیں تاکہ وہ حصہ بقدر جسہ اوپر تک پہنچا سکے اس لیے آڑھتی حضرات اور درمیانہ کمائو طبقہ ہی کسانوں سے گندم خرید کر سرکاری سینٹرز پر بیچتا ہے اور کروڑوں کماتا ہے جو مال لگائے گا اسی کی گندم خریدی جاسکے گی اور پھر کرپٹ ایم این اے ایم پی اے کی سفارش بھی ہو اسطرح حکمران جماعتوں کے پکے ووٹر سپورٹرز کی ہی گندم سینٹرز پر خریدی جاسکتی ہے ۔فی بوری 100روپے رشوت تو عام ہی سمجھیں۔شوگر ملوں نے عرصہ دراز سے کسانوں کی رقوم دبا رکھی ہیںجب تک سی پی آر کو ہی چیک کا درجہ نہیں دیا جاتاتاکہ کسان فوراً مل کے مقرر کردہ بنک سے رقم کی وصولی کر لیوے تو یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتاپاکستان میں زرعی مداخل پر عائد جی ایس ٹی کسانوں کی کھالیں ادھیڑنے کے مترادف ہے اور بیج کھاد کیڑے مار ادویات بھارت سے بھی پانچ گنا زائد قیمت پر یہاں کسانوں کو مہیا کی جاتی ہیں جو کہ سرا سر ظلم ہے یہاں کمپنیاں اربوں کمارہی ہیں اور ہندوستان میں پانچ گنا کم قیمت پر فروخت کر رہی ہیں یہ اربوں روپے حکومتی کارپرداز وزراء وغیرہ ہی کھا پی رہے ہیں۔
ضرورت تو اس امر کی ہے کہ آج تک لیے گئے تمام قرضے کلی طور پر معاف کیے جائیں تبھی وہ سکھ کا سانس لے سکتا ہے بیج کھاد ادویات وغیرہ ہمسایہ ملک کی قیمت پر کسانوں کو مہیا ہوں تاکہ کاشت پر لاگت کم آئے اور کسانوں کو محنت کا پورا صلہ مل سکے زرعی ٹیوب ویلوں پر بجلی مرحلہ وار مفت فراہم کی جائے اور اوور بلنگ قطعاً نہ ہو بلکہ ایسا کرنے والے بجلی محکمہ کے کارندے پس دیوار زنداں پھینکے جائیں فصلوں کی کاشت سے قبل ہی اس کی امدادی قیمت کا اعلان ہو نا چاہیے اور مقررہ قیمت پر فروختگی کو حکومت یقینی بنائے زرعی شعبہ کی زبوں حالی کے باعث پانچ ایکڑ سے کم ملکیت رکھنے والے کسانوں کواڑھائی لاکھ روپے فی کس قرضہ نہیں بلکہ امداد دی جائے بھارتی آبی جارحیت کے بعدہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ چھوٹے چھوٹے ڈیم فوری طور پر بنانے کا واضح پلان تیار کریں تاکہ سیلابوں اور بارش کا پانی سٹور کیا جاسکے وگرنہ خطرہ ہے کہ خدانخواستہ ہمارا ملک چولستان اور تھرکی طرح ریگستان میں تبدیل ہو کر ایتھو پیا کی طرح نہ بن جائے وزارت تجارت بھی بجٹ کے بعد مختلف مراحل پر ایسے نوٹیفکیشن جاری کرتی رہتی ہے جس سے کسان سخت سراسیمگی کے عالم میں مبتلا ہوجاتے ہیں اس طرح ان پر سال کے دوران کئی بار مہنگائی کے سمندر میں غوطے لگا لگا کر نیم مردنی کی کیفیت طاری رہتی ہے اور زراعتی شعبہ کا کام متاثر ہوتا ہے۔