تحریر: روہیل اکبر گلالئی کی پریس کانفرنس حقیقت میں ایک پتلی تماشا تھا جسکی ڈوریاں کہیں اور سے ہلائی جا رہی تھی رات گئے جب یہ پریس کانفرنس شروع ہوئی تو میں اس وقت ایک دوست ندیم کے ساتھ اپنے دفتر میں ہی موجود تھا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عمران خان کے بارے میں جو ہوشربا انکشافات ہو رہے تھے اس پر اظہار افسوس کیا جاتا اور فوری طور پر پی ٹی آئی میں موجود خواتین عمران خان کو چھوڑنے کا اعلان کرتی مگر کسی طرف سے احتجاج کے لیے ایک بندہ بھی نمودار نہیں ہوا اور نہ ہی کسی اور کی طرف سے اس طرح کے الزامات سامنے آئے عمران خان کے بارے میں پہلے بھی اسی طرح کی افواہیں پھیلائی گئی بلکہ اسے یہودی ایجنٹ تک بھی کہا گیا مگر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ عمران خان کے بارے میں پھیلائی جانے والی تمام افواہیں دم توڑ گئی اب اسکے مخالفین نے نئے انداز سے حملہ کیا ہے جسکا نقصان عمران خان کو کم مگر انکے مخالفین کو زیادہ ہوگا عمران خان تو اکیلا ہے مگر دوسری طرف پورے کا پورا خاندان ہے اور انکے ساتھی ہیں جن کے معاشقوں کی ایک لمبی تفصیل ہے اور آج سے ہی سوشل میڈیا پر وائرل بھی ہوچکی ہے اور آنے والے دنوں میں مزید سنسنی خیز انکشافات بھی سامنے آنے والے ہیں۔
مسلم لیگ ن حکومت میں رہتے ہوئے سرکاری وسائل سے اپنے حکمرانوں کا دفاع کررہی ہے جو نہ ہونے کے برابر تھا کیونکہ ان کی سوشل میڈیا ٹیم سمیت میڈیا پر آنے والے تمام افراد کسی نہ کسی طرح مفاد لے رہے ہیں تنخواہ کی صورت میں یا مراعات کی صورت میں اور ایسے افراد کو اپنے مالک کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں ہوتی انہیں لالچ ہوتا ہے اپنے مفادات کا جسکے تحفظ کے لیے وہ مفاد پرست ہر ایسا الٹا کام کریگا جس سے اسکے آقا کو وقتی خوشی مل جائے خواہ بعد میں اس سے بھی بڑی ذلت کا طوق اس کے گلے میں پڑ جائے جبکہ دوسری طرف پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا اور انکے لیے بولنے والے بغیر کسی مفاد اور لالچ کے عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں جو اپنی پوری محنت اور ایمانداری کے ساتھ مفت کام کررہے ہیں ان افراد میں بہت سے ایسے بھی ہیں جن کے پاس حکمرانوں کے خلاف بہت سا مواد ہے مجھے فکر اور پریشانی ہے کہ گذشتہ روز کی پریس کانفرنس میں جو نازیبا قسم کے الزامات عمران خان پر لگائے گئے اسی طرح کے الزامات، الزام لگانے والوں کے خلاف تصویروں کے ہمراہ سوشل میڈیا کا حصہ بن جائیں گے کیونکہ بغیر تنخواہ اور مراعات کے کام کرنے والے مخلص اور ہمدرد ہوتے ہیں جن کو اپنے لیڈر کا دفاع کرنا آتا ہے۔
عمران خان کے خلاف بولنے والی خاتون کے پاس تو کوئی ثبوت نہیں تھا اگر ہوتا تو وہ اسی وقت صحافی کے سوال پر پیش کردیتی جسکا اس نے پہلے کسی پروگرام میں وعدہ بھی کیا تھا مگر میں صبح سے دیکھ رہا ہوں کہ پی ٹی آئی کے ورکروں کی طرف سے حکمران خاندان اور انکے ارد گرد افراد کے متعلق جو کچھ سوشل میڈیا پر پھیل چکا ہے وہ تو ایک حقیقت ہے اور ان میں سے بعض باتیں ایسی بھی ہیں جو آج تک بہت کم لوگوں کو معلوم تھیں اور اب پوری دنیا کو معلوم ہوجائیگا یہ سب کچھ ایسے افراد کی نااہلی اور نالائقی سے ہورہا ہے جو اپنے آپ کو حکمران خاندان کا ما لشیا بنانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے سیاست شطرنج کے کھیل کی مانندد ہوتی ہے جس میں بادشاہ کو ہرصورت بچایا جاتا ہے اس کے لیے خواہ پیادہ فورس کو قربان کرنا پڑے یا توپوں کا رخ ادھر سے ادھر کرنا پڑے اور تو اور بادشاہ کو بچانے کے لیے خواہ وزیر کو ہی کیوں نہ قربان کرنا پڑے اسکی کی قربانی بھی دیدی جاتی ہے مگر مسلم لیگ ن کی سیاست کرنے والوں نے سب سے پہلے باشاہ کو ہی سامنے لاکھڑا کیا اور شکست کھا لی کیونکہ بادشاہ سلامت کے سامنے کسی کو سر اٹھانے کی جرات نہیں ہوتی تھی جو کہہ دیا وہ حرف آخر بن جاتا تھا اور پھر باقی سب درباری جی حضوری میں لگ جاتے تھے اور یہ تمام فراد اس وقت تک میاں صاحب کے ساتھ رہتے جب تک انکے پاس اقتدار رہتا جیسے ہی اقتدار سے چھٹی ہوتی یہ پنچھی بھی کہیں اور بسیرا کرلیتے تھے اور اب ایک بار پھر ایسا ہوتا نظر آرہا ہے ویسے بھی میاں نواز شریف نے آج تک خود وقت پورا کیا اور نہ ہی کسی کو پورا کرنے دیا ہے۔
آپ دیکھ لیں کہ ضیاء الحق کی مارشل لاء کے دوران میاں نواز شریف سیاست میں آئے یا لائے گئے اور اب تک پاکستان میں انکی موجودگی کے دوران انہوں نے کسی بھی وزیراعظم کو اپنی مدت پوری نہیں کرنے دی مگر آپ جب سعودیہ میں تھے تو اس وقت پرویز مشرف کا دور حکومت تھا اسکے بعد جناب زرداری صاحب کی حکومت بنی یہی وہ دور تھا جو اپنی مدت پوری کرسکا میاں نواز شریف صاحب آپ تین بار پاکستان کے وزیراعظم بنے مگر آپکے رشتہ داروں اور خوامخواہ اٹھانے والوں نے اس بار بھی آپ کو رسوا کرکے ایوان اقتدار سے نکلنے پر مجبور کردیا اور اب جو غلطیاں آپ کی ٹیم عمران خان کے حوالہ سے کر رہی ہے۔
امید ہے کہ یہ آپ کی سیاسی زندگی کا باب ہمیشہ کے لیے بند کرنا چاہتے ہیں جس طرح آپ لوگ خریدنے کا شغل فرماتے ہیں ہوسکتا ہے کہ اسی طرح آپ کے ارد گرد موجود افراد کو بکنے کا شوق ہواور وہ کسی اپنے کے ہاتھوں ہی آپ کو آپ سے دور کرتے جارہے ہو رہی بات گلالئی کی پریس کانفرنس میں ہونے والے انکشافات کی اسے تو کسی نے بھی سنجیدہ نہیں لیا کیونکہ میرے دفتر میں بیٹھا ہوا میرا دوست صحافی ہے نہ سیاست دان وہ لٹن روڈ پر بزنس کرتا ہے اس پریس کانفرنس کودیکھنے کے بعد اس نے بھی اسے ایک ڈرامہ ہی قرار دیا تھا کیونکہ سوشل میڈیا کے زریعے اب عوام کو شعور آچکا ہے بات شروع ہوتی ہے تو اسکے انجام تک لوگ پہلے پہنچ جاتے ہیں اور ابھی کل سے جو کچھ سوشل میڈیا پر میں دیکھ رہا ہوں وہی سب کچھ آپ لوگوں کی نظروں سے بھی گذرتا ہوگااب بہت سے ایسے پردہ نشین بھی منظر عام پر آچکے ہیں جنہیں ہم بڑے پارسا سمجھتے تھے جنہیں دیکھ اور پڑھ کر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ اب رکنے والا نہیں ہے بات نکلی ہے تو پھر دور تلک جائیگی۔