تحریر: منشاء فریدی ٩مارچ٢٠١٧ء کا دن میرے لیے منحوس دن بھی تھا اور سعادت مند بھی۔ سعادت مند اس لیے کہ اس دن مجھے نا حق قتل کیا گیا۔ ناحق قتل ہی شہادت کے زمرے میں آتا ہے ۔ اس روز مجھے جس اذیت کیساتھ موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ تم اس کا ایک فیصد تصور بھی نہیں کر سکتے۔ میری میت کو دوسرے دن جب غسل دیا گیا تھا جب میری نماز جنازہ پڑھی جا رہی تھی تو ہر آنکھ اشکبار تھی ۔میرے قاتل بھی رو رہے تھے۔ اپنے اس قبیح فعل پر خوب پچھتا رہے تھے۔ قاتلوں کو زمین پناہ دے رہی تھی نہ آسمان ۔۔۔۔ ایک طرف ریاست کا قانون قاتلوں کو ڈرا رہا تھا تو دوسری طرف آخرت میں اللہ کی پکڑ سے وہ نا ممکن نجات سے خوفزدہ تھے۔ کیونکہ قتل کبھی معاف نہیں ہوتا ۔ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔
میرے قاتلوں نے انسانیت کو قتل کر کے گویا دنیا و مافیہا سے انسانیت کا نام و نشان تک مٹا دیا ۔ میرے قتل کے دن سے لے کر اب تک مجھے بھی یقین ہو چلا ہے کے واقعی قاتلوں نے انسانیت کا قتل کر دیا ہے ۔ انسان نام کی کوئی چیز اب دنیا میں نہیں رہی۔ اب تو مرے نا حق قتل پر بہت کچھ ہورہا ہے ۔۔ ذاتی مفادات پر ڈیل کا پراسس جاری ہے ۔ میرا قتل بہت سو ں کیلئے بہترین بزنس بن چکا ہے ۔ جو مستقبل کیلئے سنہرے خواب دیکھ رہے ہیں ۔ میرے حقیقی ہمدرد اس وقت بھی میری جدائی میں رو رو کر نڈھال ہو رہے ہیں ۔ خون کے آنسو رو رہے ہیں ۔ مگر ریاست اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہی ۔ ریاستی قانون چمک کے آگے بے بس ہے ۔ میرے نا حق قتل پر نہ جانے کیوں فیئر کا ر روائی نہیں ہوری ۔ اور نہ جانے کس لئے میرے قتل کے حقائق تک نہیں پہنچا جارہا ۔ وہ کون سے محرکات ہیں جن کی بنیاد پر ریاستی قانون اور پولیس نظام خاموش ہے ۔ ۔۔ ؟ آج بھی ریاستی قانون ، ارباب حل و عقد اور بہت سوں کو میرے قتل کے حقائق بارے شاید مکمل علم ہو ؟ لیکن نہ جانے و ہ کونسی پالیسی ہے جو امر مانع ہے ؟ بلا شک اس میں شک مناسب نہیں ۔ کیونکہ اپنا خون کبھی غدار نہیں ٹھہرتا اور نہ ہی اپنوں کا خون بکتا ہے ۔ مگر دنیا کا دستور رائج الوقت بھی یہی ہے ۔ جس سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔
آپ میرے عزیز ہیں ۔ آپ روز اول سے اب تک میرے قتل پر کسی نہ کسی طرح آواز بلند کرتے رہے۔ انتہائی جرأت کے ساتھ کالم / بلاگ لکھا، سوشل میڈیا ٹوئیٹر ، فیس بک اور گوگل پر سٹیٹس لگائے ۔ ارباب اقتدار و اختیار کے ضمیر کو جھنجھوڑ ا ۔ جس پر میں ( حسیب شہید) آپ کا تہہ دل سے مشکور ہوں۔ مجھے امید تھی کہ آپ میرے مقدمہ سے متعلق میرے ورثاء کو مناسب مشاورت دیں گے۔ مگر بد قسمتی سے آپ کے قیمتی مشورے کوڑا دان کی نذر کر دیے گئے ۔ الٹا آپ کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا ۔ جس پر اپنے لواحقین کے آپ کے بارے جھوٹے اور غلیظ الزامات پر آپ سے معذرت خواہ ہوں ۔ آخر میں آپ سے عرض کرتا چلوں کہ میرے نا حق قتل پر جتنا ہو سکے آواز بلند کریں ۔ حقائق تک پہنچنے کیلئے طاقتور نظام کو مجبور کریں ۔ میری بات سپریم کورٹ تک پہنچائیں ۔ تاکہ مائوں کے”حسیب ”محفوظ رہ سکیں ۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ میرے قتل پر ایک قانون ساز مذہبی دوکانداری چلا رہا ہے ۔ خدا غارت کرے ایسے ظالموں کو ۔۔۔!