تحریر : قادر خان یوسف زئی خواتین کے ایک معروف سرکاری کالج میں انگلش کا پیریڈ تھا کہ ایک طالبہ زور زور سے رونے لگی، ٹیچر نے پڑھانا چھوڑا بھاگم بھاگ اس کے پاس جا پہنچی۔ بڑی نرمی سے دریافت کیا کیا بات ہے بیٹی کیوں رورہی ہو۔۔۔ اس نے سسکیاں لے کر جواب دیا میرے فیس کے پیسے چوری ہوگئے ہیں، بیگ میں رکھے تھے کسی نے نکال لئے ہیں۔۔۔ ٹیچر نے ایک لڑکی کو اشارہ کرتے ہوئے کہا، کمرے کے دروازے بند کردو کوئی باہر نہ جائے سب کی تلاشی ہوگی۔ ٹیچر نے سامنے کی تین رو سے طالبات کی خود تلاشی لی اور پھر انہیں پوری کلاس کی طالبات کی جیبیں چیک کرنے اور بستوں کی تلاشی کی ہدایت کردی۔ کچھ دیر بعد دو لڑکیوں کی تکرار سے اچانک کلاس ایک بار پھر شور سے گونج اٹھی۔ ٹیچر اپنی کرسی سے اٹھتے ہوئے بولی۔۔۔کیا بات ہے؟۔”مس تلاشی لینے والی طالبہ بولی۔۔۔ یہ اپنے بیگ کی تلاشی نہیں لینے دے رہی۔۔۔ٹیچر وہیں تڑک سے بولی پیسے پھر اسی نے چرائے ہوں گے۔
دوسری طالبہ تڑپ کر بولی نہیں۔۔ نہیں مس میں چور نہیں ہوں ”چور۔۔۔نہیں ہو تو پھربیگ کی تلاشی لینے دو ”نہیں۔۔ طالبہ نے کتابوں کے بیگ کو سختی سے اپنے سینے کے ساتھ لگالیا نہیں میں تلاشی نہیں دوں گی۔۔۔ٹیچر آگے بڑھی اس نے طالبہ سے بیگ چھیننے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکی اسے غصہ آگیا ٹیچر نے کوثر کے منہ پر تھپڑ دے مارا ۔وہ طالبہ زور زور سے رونے لگ گئی۔ ٹیچر پھر آگے بڑھی ابھی اس نے طالبہ کودوباہ مارنے کیلئے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ ایک بارعب آواز گونجی۔۔۔رک جاو، ٹیچر نے پیچھے مڑکر دیکھا تو وہ پرنسپل تھیں نہ جانے کب کسی نے انہیں خبرکردی تھی۔۔۔انہوں نے طالبہ اورٹیچر کو اپنے دفتر میں آنے کی ہدایت کی اور واپس لوٹ گئیں۔۔۔پرنسپل نے پوچھا کیا معاملہ ہے ٹیچرنے تمام ماجراکہہ سنایا۔۔۔انہوں نے طالبہ سے بڑی نرمی سے پوچھا ”تم نے پیسے چرائے؟۔”نہیں اس نے نفی میں سرہلا دیا۔۔۔ طالبہ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے ”بالفرض مان بھی لیا جائے۔۔۔پرنسپل متانت سے بولیں تمام طالبات اپنی اپنی تلاشی دے رہی تھیں تم نے انکار کیوں کیا؟ ۔طالبہ خاموشی سے میڈم کو تکنے لگی۔۔ اس کی آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسو نکل کر اس کے چہرے پر پھیل گئے۔۔
ٹیچر نے کچھ کہنا چاہا، جہاندیدہ پرنسپل نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا۔ پرنسپل کا دل طالبہ کا چہرہ دیکھ کر اسے چور ماننے پر آمادہ نہ تھا پھر اس نے تلاشی دینے کے بجائے تماشا بننا گوارا کیوں کیا۔۔۔ اس میں کیا راز ہے؟ وہ سوچنے لگی اور پھر کچھ سوچ کر ٹیچر کو کلاس میں جانے کا کہہ دیا۔۔۔پرنسپل نے بڑی محبت سے طالبہ کو اپنے سامنے والی نشست پر بٹھا کر پھر استفسار کیا۔ اس نے خاموشی سے اپنا بیگ ان کے حوالے کر دیا پرنسپل نے اشتیاق، تجسس اور دھڑکتے دل کے ساتھ بیگ کھولا۔۔۔مگر یہ کیا کتابوں کاپیوں کے ساتھ ایک کالے رنگ کا پھولا پچکا ہوا شاپر بیگ بھی باہر نکل آیا ۔طالبہ کو یوں لگا جیسے اس کا دل سینے سے باہر نکل آیا ہو،طالبہ کی ہچکیاں بندھ گئیں ۔پرنسپل نے شاپر کھولا اس میں کھائے ادھ کھائے برگر، سموسے اور پیزے کے ٹکڑے، نان کچھ کباب اور دہی کی چٹنی میں ڈوبی چکن کی بوٹیاں۔۔۔سارا معاملہ پرنسپل کی سمجھ میں آ گیا۔۔ وہ کانپتے وجود کے ساتھ اٹھی روتی ہوئی طالبہ کو گلے لگا کر خود بھی رونے لگ گئی۔۔۔۔ طالبہ نے بتایا میرا کوئی بڑا بھائی نہیں۔۔۔دیگر 3 بہن بھائی اس سے چھوٹے ہیں، والد صاحب ریٹائرڈمنٹ سے پہلے ہی بیمار رہنے لگے تھے گھر میں کوئی اور کفیل نہیں ہے پنشن سے گذارا نہیں ہوتا بھوک سے مجبور ہو کر ایک دن رات کا فاقہ تھا ناشتے میں کچھ نہ تھا کالج آنے لگی تو بھوک اور نقاہت سے چلنا مشکل ہوگیا۔میں ایک تکہ کباب کی د کان کے آگے سے گذری تو کچرے میں کچھ نان کے ٹکڑے اور ادھ کھانا ایک چکن پیس پڑا دیکھا بے اختیار اٹھاکرکھا لیا۔
قریبی نل سے پانی پی کر خداکر شکر ادا کیا۔۔۔پھر ایسا کئی مرتبہ ہوا ایک دن میں دکان کے تھڑے پر بیٹھی پیٹ کا دوزخ بھررہی تھی کہ دکان کا مالک آگیا اس نے مجھے دیکھا تو دیکھتاہی رہ گیا، ندیدوںکی طرح نان اور کباب کے ٹکڑے کھاتا دیکھ کر پہلے وہ پریشان ہوا پھر ساری بات اس کی سمجھ میں آگئی وہ ایک نیک اور ہمدرد انسان ثابت ہوا میںنے اسے اپنے حالات سچ سچ بتا دئیے اسے بہت ترس آیا۔ اب وہ کبھی کبھی میرے گھر کھانا بھی بھیج دیتا ہے اور گاہکوں کا بچا ہوا کھانا،برگر وغیرہ روزانہ شاپر میں ڈال اپنی دکان کے باہر ایک مخصوص جگہ پررکھ دیتا ہے۔جو میں کالج آتے ہوئے اٹھا کر کتابوں کے بیگ میں رکھ لیتی ہوں اور جاتے ہوئے گھر لے جاتی ہوں میرے امی ابو کو علم ہے میں نے کئی مرتبہ دیکھا ہے لوگوں کا بچا کھچا کھانا کھاتے وقت ان کی آنکھوں میں آنسو ہوتے ہیں ۔بہن بھائی چھوٹے ہیں انہیں کچھ علم نہیں وہ تو ایک دوسرے سے چھین کر بھی کھا جاتے ہیں۔۔۔۔
یہ چھوٹی سی سچی کہانی کسی بھی درد ِ دل رکھنے والے کو جنجھوڑ کر رکھ سکتی ہے ہم غور کریں تھوڑی سی توجہ دیں تو ہمارے اردگرد بہت سی ایسی کہی ان کہی کہانیوں کے کردار بکھرے پڑے ہیں اس سفید پوشوں کیلئے کوئی بھی جمہوری حکومت کچھ نہیں کرتی ایسے پسے، کچلے سسکتے اور بلکتے لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پاکستان میں کوئی ڈکٹیٹر راج کررہا ہے یا جمہوریت کا بول بالا ہے۔۔۔نہ جانے کتنے لاکھوں اورکروڑوں عوام کا ایک ہی مسئلہ ہے دو وقت کی روٹی جو بلک بلک کر تھک گئے ہیں۔ اے پاکستان کے حکمرانوں………خدا کے واسطے رحم کرو۔۔۔غریبوں سے ہمدردی کرو۔۔۔ان کو حکومت یا شہرت نہیں دو وقت کی روٹی چاہیے حکمران غربت کے خاتمہ کیلئے اناج سستا کر دیں تو نہ جانے کتنے لوگ خودکشی کرنے سے بچ جائیں۔۔۔یقینا ہم میں سے کسی نے کبھی نہیں سوچا ہوگا کہ ہم روزانہ کتنا کھانا ضائع کرتے ہیں اور کتنے لوگ بھوک،افلاس کے باعث دانے دانے کیلئے محتاج ہیں ـرزق کی حرمت اور بھوکے ہم وطنوں کا احساس کرنا ہوگا ۔حکمران کچھ نہیں کرتے نہ کریں ہم ایک دوسرے کا خیال کریں ایک دوسرے کے دل میں احساس اجاگر کریں یہی اخوت کا تقاضا ہے اسی طریقے سے ہم ایک دوسرے میں خوشیاں بانٹ سکتے۔ہم مسلمانوں میں اسلام کا دیا ہوا نظام موجود ہے جسے فلاحی ریاست کا بلند ترین تصور خیال کیا جاتا ہے ۔ لیکن یہ بات ہمیشہ ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہے کہ مسلمانوں کے اکثریتی ممالک ، جو کہ اسلام ممالک کہلاتے ہیں ، فلاحی ریاست کے نظام کو نافذ کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔ ایک فلاحی ریاست کا تصور اسلام کا دیا ہوا ہے ، کچھ غیر مسلم ممالک میں بے روزگاروں کے لئے ریاست کی جانب بے روزگاری فنڈز مقرر ہیں ، کیونکہ یہ مغربی ریاستیں سمجھتیں ہیں کہ روزگار دینا ریاست کی ذمے داری ہے ، لہذا جب تک اس کے شہری کو روزگار نہیں ملتا ، اس وقت تک باقاعدگی سے بے روزگاروں کو ، ریاست میں سیاسی پناہ کی تلاش کرنے والے اور مہاجرین کو حتی المقدور اتنا معاوضہ دیا جاتا ہے کہ کسی کچرا دان سے کسی کا جھوٹا کھانا کھانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔
پاکستان کو اسلامی و فلاحی ریاست بنانے کے دعوے کئے جاتے ہیں ، لیکن بالا سطورمیں لکھے ایک واقعہ کو پڑھنے کے بعد اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر یہ ضرور سوچنا کہ کیا قیام پاکستان سے لیکر 28ویں وزیرا عظم تک کوئی ایسا سربراہ مملکت گذرا ہے ، جس نے عوام کی حالت حقیقی معنوں میں تبدیل کرنے کی کوشش کی ہو۔ پاکستان کے حکمرانوں سمیت تمام مسلم ممالک کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالی کی عدالت میں ان کا کڑا احتساب ہوگا ۔ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا فرمان تو سب کے علم میں ہے کہ اگر دجلہ کے کنارے کوئی کتا بھوکا پایا گیا تو اس کی باز پرس بھی اُن سے کی جائے گی ۔ بد قسمتی سے ہمیں ادھورا پاکستان ملا تو اس کے ساتھ ادھورے سربراہان مملکت بھی ملے جو ستر برسوں میں اپنے قیام کردہ نظام کی کوئی معیاد بھی مکمل نہیں کرسکے ۔ اس کا ذمے دار کون ہے اور اس کی وجوہات کیا ہیں ، یہ ایک موضوع ہے ، جس سے ہم سب آگاہ ہیں ۔ لیکن کہاجاتا ہے کہ کفر کا نظام چل سکتا ، ظلم کا نظام نہیں چل سکتا ۔ عوام کو درپیش مسائل کا حل ، ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں نہیں ہے ، بلکہ آئین ساز اداروں کو ایک ایسا آئین بنانے کی ضرورت ہے جو قرآن و سنت ۖ کے مطابق ہو ۔ ایک بڑے سیاسی جلسے کے بڑا ہوجانے والے لیڈر بار بار خلافت راشدہ کی مثالیں دیتے ہیں ، لیکن ان کا پنا طرز عمل اور جلسے میں ان کے چاہنے والوں کے انداز دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے خلافت راشدہ کا مذاق اڑایا جا رہا ہے ۔ جب تک قول و عمل میں تضاد نہیں ہوگا ۔ اس وقت تک زبان کی تاثیر کا بھی کوئی اثر نہیں ہوگا ۔ اگر قوم و مملکت کو تبدیل کرکے فلاحی ریاست کا خواب پورا کرنا ہے تو پھر اس کے مطابق پہلے اپنی شخصیت کو ڈھال کر عملی نمونہ بھی دینا ہوگا ۔جیسا بھی ہے پاکستان ملا ، ادھورا سہی لیکن یہ ایک نعمت ہے لیکن خدارا یہاں ادھورے نظام کو تو نافذ مت کرو کہ عوام کی مشکلات میں اضافہ نہ ہو۔