تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ سب سے پہلے میں اُس آل انڈیا مسلم لیگ ١٩٠٦ء ١٩٤٧ء کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ جس کے صدر حضرت قائد اعظم محمد علی جناح تھے۔ جس کی انتھک محنت جمہوری جد وجہد کی وجہ سے دنیا اسلام کا سب سے بڑا، دنیا کا چھٹا بڑا مثل مدینہ ملک، اسلامی جمہوریہ پاکستان١٤ اگست ١٩٤٧ء میں مظہرے وجود میں آیا۔یہ ایک معمولی سی سو چ رکھنے والا شخص بھی جان سکتا ہے کہ جس مسلمان قوم سے انگریزوں نے برصغیر کا اقتدار چھینا تھا اس کو ہر لحاظ سے کمزور کرنا ہے تاکہ وہ دوبارہ ان سے اقتدار واپس نہ لے لے۔ اسی پالیسی پر انگریزوں نے اپنی پوری ڈیڑھ سو سالہ حکمرانی میں عمل کیا۔ سب سے پہلے مغل بادشاہ بہادرشاہ ظفر کو ذلیل طریقے سے برما میں قید کیا۔اس پر ظلم کے پہاڑ توڑے وہ چیخ اُٹھا اور اپنی بربادی کو اس طرح بیان کیا۔” کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے۔دوگز زمیں بھی مل نہ سکی کوئے یار میں”۔١٨٥٧ء کی جنگ آزادی کے بعد تو صلیبیوں نے ظلم کی انتہا کر دی۔مسلمان رہنمائوں اور علماء کا قتل عام کیا گیا۔ توپوں کے آگے باندھ کر اُڑا دیا۔ ان کی زمینیں ان سے چھین لی گئیں ان پر تعلیم کے دروازے بند کر دیے گئے۔صاحبو! برصغیر پر صلیبیوں کی گرفت کی داستان کچھ اس طرح ہے۔
سب سے پہلے پرتگالی کپتان واسکوڈیگاما 1498 ء میںصرف تین بادبانی جہازوں کے دستے کے ساتھ جنوبی ہند کی کا لی کٹ بندرگاہ پہنچا اور گوآ کو مستحکم جنگی مرکز بنایا1501 ء میں شاہ پرتگال کا فرمان تھا موروں( مسلمانوں)کو قتل کیا جائے اور ہندوں کو تعلیم دے کر دفتری کام لیا جائے۔انگریز اور دوسری یورپی قوموںکو ہند وستان میں قدم جمانے کے لیے70 سال تک آپس میں کش مکش کرنی پڑی تھی۔ انگریز سوداگروں کی سب سے پہلی تجارتی کوٹھی1612 ء میں سورت میں قائم ہوئی بھر ریشادونیوں سے فرنگی سوداگر ہندوستان پر قبضہ جماتے گئے ۔میجر ڈی باسو ایک ہندو مضمون نگار نے صلیبیوں کی مسلم کش پالیسیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ”حقیقت میں لارڈ اڈنبراگرنر جنرل ١٨٤٢ء میںاس پالیسی کا آغاز کر چکا تھا ۔ اس کا حکم تھا کہ ہلالی مسلمانوں کو نیچادیکھاتے رہو،انہیں ہر گز نہ اُبھرنے نہ دو۔کسی طرح ان کی ہمت افزائی نہ کی جائے” دوسری طرف سیاسی محاذ پر آل انڈیا نیشنل گانگریس شروع دن سے متعصب ہندوئوں کی جماعت تھی، مگر کہتی تھی کہ وہ پوری ہند کی نمائندگی کرتی ہے۔ انگریز بھی کانگریس کو ہندوستان کی ترجمان جماعت مانتے تھے۔شروع میں قائد اعظم بھی ہند ومسلم اتحاد کے داعی تھے۔ علامہ اقبال بھی ہندوستان کے نغمے گنگناتے تھے۔یہی حال سرسید احمد خان کا بھی تھا۔مگر ان سب مسلمان رہنمائوں کو متعصب ہندوئوں نے اپنے عمل سے مجبور کر دیا کہ وہ علیحدہ مسلم تشخص کی سیاست کریں۔ پھر مسلم لیگ کی آبیاری کچھ اس طرح سے ہوئی کہ٢٠۔٢١ اکتوبر ١٩٠١ء کو لکھنو میں نواب حامد علی خان کی رہائش گاہ پر جلسہ منعقد ہوا۔ اس میں مسلمانوں کی سیاسی سطح پر کمزور پوزیشن پر بحث ہوئی اور ایک سیاسی جماعت جس کا نام پلیٹیکل آگنائزیشن تھا وجود میں آئی مگر اس کو کامیابی نہ ملی۔اور بھی مسلم تنظیمیں قائم ہوئیں مگر بلا آخر ڈھاکہ میں پورے ہندوستان سے مسلمان جمع ہوئے اور ٣٠ دسمبر ١٩٠٦ء کو نواب وقارالملک کی صدارت میں آل انڈیامسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔
پھر آل انڈیا مسلم لیگ کا پہلا باقاعدہ اجلاس٢٩۔ ٣٠ دسمبر ١٩٠٧ء کو سر آدم جی پیر بھائی کی صدارت میں کراچی میں منعقد ہوا جس میں اغراض و مقاصد آئین منظور کیا گیا۔آل انڈیا مسلم لیگ کے چھٹے اجلاس ٢٢۔ ٢٣ مارچ ١٩١٣ء میں محمد شفیع کی صدارت میں لکھنو میںمنعقد ہوا۔ قائد اعظم کو مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کی درخواست کی گئی جو اُس وقت تک مسلم لیگ کے ممبر نہیں تھے۔ اس اجلاس میں مسلم لیگ کا ترمیم شدہ آئین منظور ہوا۔پھر بدقسمتی سے مسلم لیگ میاں شفیع گروپ اور قاعداعظم گروپ میں تقسیم ہو گئی۔ایک آزادی کی خواہاں تھی دوسر ی ڈومینیں اسٹیٹ کی خواہاں تھی۔آل انڈیا مسلم لیگ کااکیسوں سالانہ اجلاس علامہ اقبال کی صدارت میںالہ آباد ٢٩۔ ٣٠ دسمبر ١٩٣٠ء میں منعقد ہوا۔یہ اجلاس اس لیے تاریخی تھا کہ اس اجلاس میں علامہ ڈاکٹر محمداقبال نے ایک آزاد اور خود مختیار اسلامی ریاست کا مطالبہ کیا تھا۔ علامہ اقبال نے کہا کہ”میری خواہش ہے کہ پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبہ،سندھ اور بلوچستان کے الحاق سے ایک واحد ریاست قائم کی جائے جو برٹش ایمپائر کے اندر یاباہر آزاد اور خود مختیار ہو۔میرے خیال میںشمال مغرب میںمتحدہ انڈین مسلم اسٹیٹ کا قیام کم از کم شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں مقدر بن چکا ہے” ١٩٣١ء کے بعد ایک دفعہ پھر مسلم لیگ ہدایت اللہ گروپ اورعزیز گروپ میں تقسیم ہو گئی۔ بلا آخر١٩٣٤ء میں قائد اعظم لندن سے واپس آئے اور مسلم لیگ کا اجلاس ہوا۔
ہدایت اللہ اور میاں عبدلعزیز بیرسٹر نے قائد اعظم کے سامنے استعفے دے دیے اور اس اجلاس میں قائد اعظم آل انڈیا مسلم لیگ کے متفقہ طور پر صدر منتخب ہو گئے۔ قائد اعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کو متحد کیا۔قائد اعظم نے کانگریس کی” ہند چھوڑوتحریک” کے مقابلے میں”تقسیم کرو اور چلے جائے” کا اعلان کیا۔اس اجلاس میں میاں بشیر احمد نے پاکستان کا ترانہ پیش کیا۔ پہلی دفعہ قاعد اعظم نے جناع کیپ پہنی۔قائد اعظم نے نواب بہادر جنگ کے سوال کے جواب میں پاکستان کے لیے سوشلزم اور کیمونزم کو یک سر رد کر دیا۔قائد اعظم نے پاکستان کی تحریک کو”عقیدوں کی جنگ” قرار دیا۔قائد نے کہا تھا کہ مسلم لیگ نے پاکستان حاصل کیا۔یہ ایک ”مقدس امانت” ہے آپ کو اس کی حفاظت کرنی ہے۔
مسلم لیگ کافرض ہے کہ وہ پاکستان کی تعمیر کرے۔ مگر پاکستان بننے کے بعدنا اہل سیاستدانوں نے اقتدار کے لیے مسلم لیگ کے حصے بغرے کیے گئے۔ کنونشن مسلم لیگ،ق مسلم لیگ، ن مسلم لیگ نہ جانے اور کتنے ناموں سے مسلم لیگیں قائم کی گئیں اور اس مقدس نام سے فواہد حاصل کیے گئے۔ اب حال یہ ہے کہ جس کا دل چاہے مسلم لیگ کے مردے گھوڑے پر سوار ہو کر اس کے منشور سے دغا و فریب کرے۔ کبھی کوئی حکمران کہے کہ میں سیکولر ہوں۔ کوئی کہے کہ میں روش خیال ہوں۔ عوام تو اُس آل انڈیا مسلم لیگ کا شکریہ ادا کرتے ہیں جس نے قائد اعظم کی قیادت میں محکوم مسلمانوں کا سر فخر سے بلند کیا۔ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کے مستانہ نعرہ لگا کر مسلمانوں کو متحد کیا اور دو قومی نظریہ کی بنیاد پر،جمہوری طریقے سے ہندوئوں اور انگریزوں کو دلائل سے شکست دے کر اسلام کے نام پر مثل مدینہ اسلامی جمہوریہ پاکستان حاصل کیا۔ شکریہ آل انڈیا مسلم لیگ شکریہ!