تحریر: مرزا روحیل بیگ دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپان کے شہر ہیروشیما پر امریکہ نے ایٹم بم گرا کر صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔6 اگست 1945 کی صبح آٹھ بجکر سولہ منٹ پر ”لٹل بوائے” نامی ایٹم بم نے جو قیامت ڈھائی اس نے پلک جھپکتے ہی نوے ہزار لوگوں کو ابدی نیند سلا دیا۔کیونکہ ایٹم بم گرنے کے بعد سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں درجہ حرارت ایک لاکھ ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا تھا۔جس نے ہر شئے کو پگھلا کر رکھ دیا۔اور لمحوں میں پورا شہر ملیامیٹ ہوگیا۔انسان جل بھن کر راکھ،لاکھوں اپاہج بہت سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گئے۔دوسری جنگ عظیم کے شروع میں جاپان کے شہر ہیروشیما کی آبادی قریب تین لاکھ اکاسی ہزار تھی۔یہ شہر فوجی سازوسامان کے حوالے سے اہم شہر تھا۔اس وجہ سے جاپانی فوج نے بڑے پیمانے پر عام شہریوں کا انخلاء کیا۔اور حملے کے وقت یہاں آبادی دو لاکھ کے قریب تھی۔امریکہ نے مین ہیٹن منصوبے کے تحت جس ایٹم بم ہر تحقیق کی تھی اس میں برطانیہ اور کینیڈا کا اشتراک بھی تھا۔اس منصوبے کے تحت امریکہ ایٹمی اسلحے کا تجربہ 16 جولائی 1945 کو نیو میکسیکو میں ٹرینٹی پر کر چکا تھا۔ اب اس کے حتمی استعمال کا فیصلہ کیا گیاتھا۔ 6 اگست 1945 کی صبح ہیروشیما کے عوام چند لمحوں میں ڈھائی جانے والی قیامت سے بے خبر تھے۔انہیں علم نہیں تھا کہ امریکی Bـ29 نامی طیارہ ان کی موت کا پیغام لیکر آ رہا ہے۔
امریکی طیارہ اپنی اڑان بھر چکا تھا۔اس طیارے کی حفاظت پر مزید دو طیارے مامور تھے۔تاکہ جاپانی فوج کی جانب سے کسی کاروائی کی صورت میں Bـ29 طیارے کا دفاع کیا جا سکے۔طیارے کو حکم تھا کہ مطلوبہ ٹارگٹ پر پہنچنے سے پہلے بلندی اکتیس ہزار فٹ ہونی چاہئیے۔سفر کے دوران طیارے کے عملے نے ایٹم بم گرائے جانے سے متعلق ضروری اقدامات کیئے۔اور آخر میں سیفٹی پن نکال لی۔ طیارے میں لدا ہوا نو ہزار سات سو پونڈ وزنی یورینیم سے تیار کردہ ”لٹل بوائے” نامی ایٹم بم ہیروشیما کو نیست و نابود کرنے کے لیئے تیار تھا۔صبح کے آٹھ بجکر پندرہ منٹ پر طیارے سے ایٹم بم زمین کے رخ چھوڑ دیا گیا۔ 43 سیکنڈ بعد انسانی تاریخ کا بہت بڑا دھماکہ ہوا۔یہ دھماکہ اتنا بڑا تھا کہ فضا میں ساڑھے گیارہ میل بلندی پر اڑتا ہوا طیارہ بھی ہچکولے کھانے لگا۔ہر طرف تاریکی چھا گئی۔کسی کو کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔سب کچھ سخت تپش سے پگھل چکا تھا۔نہ ہی فضا میں پرندے بچے اور نہ ہی زمین پر انسان و حیوان۔ جہاں پر ایٹم بم گرا وہاں پر اردگرد کسی عمارت کا نام و نشان باقی نہ رہا۔ہر طرف آگ ہی آگ تھی۔آگ نے ساڑھے چار میل تک کا علاقہ اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔چونکہ ہر چیز تباہ و برباد ہو چکی تھی۔
ریڈار اور ٹیلی گرافک سسٹم بھی تباہ ہو چکے تھے۔رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے جاپان کے دوسرے علاقوں کو علم نہیں تھا کہ ان کے ہم وطنوں کے ساتھ کیا قیامت خیز سانحہ رونما ہو چکا ہے۔تباہی اتنی زیادہ تھی کہ کوئی آہ و بقا کرنے والا نہ بچا۔آگ اور دھوئیں سے اٹھنے والا مرغولہ پنتالیس ہزار فٹ بلندی تک پہنچ چکا تھا۔ جاپانی فوجی قیادت سمجھنے سے قاصر تھی کہ نہ بڑا فضائی حملہ ہوا ہے اور نہ ہی ہیروشیما میں اتنا بڑا فوجی سازو سامان کا ذخیرہ تھا کہ جس سے بڑی تباہی کا امکان ہوتا۔جاپانی فضائیہ کا ایک طیارہ صورتحال کا جائزہ لینے کے لیئے ہیروشیما کے اوپر تین گھنٹے تک پرواز کرتا رہا مگر مخمصے کا شکار رہا۔سوائے دھوئیں اور بادلوں کے علاوہ کچھ نہ دیکھ سکا۔ہیروشیما میں کیا ہو رہا تھا اس بات کا اندازہ اس وقت ہوا جب امریکی صدر نے 6 اگست دن گیارہ بجے ایک ریڈیو پیغام نشر کیا کہ امریکہ نے جاپانی شہر ہیروشیما پر ایک نئے ایٹم بم سے حملہ کیا ہے۔ایک اندازے کے مطابق دھماکے میں تپش اور تابکاری کے نتیجیمیں نوے ہزار افراد موت کے منہ میں جا چکے تھے۔
کینسر اور لمبے عرصے تک بیماری سے مرنے والوں کی مجموعی تعداد قریب دو لاکھ تک ہے۔ایٹمی حملے سے ساٹھ فیصد افراد آگ کے شعلوں سے جھلس کر ہلاک ہوئے،جبکہ تیس فیصد ملبہ گرنے اور دس فیصد دیگر وجوہات کی بناء پر موت کے منہ میں چلے گئے۔صرف تین دن کے وقفے سے یعنی نو اگست کو امریکہ نے جاپان کے شہر ناگاساکی پر دوسرا ایٹمی حملہ کیا جس میں قریب اسی ہزار لوگ مارے گئے۔ناگاساکی پر حملے کے بعد جاپان نے ہتھیار پھینک دیئے۔یوں دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ ہو گیا۔ماہرین کہتے ہیں ہیروشیما اور ناگاساکی پر جو ایٹم بم گرائے گئے تھے آج کا بم ان کی نسبت بہت زیادہ مہلک اور خطرناک ہے۔جنگ عظیم دوم ختم ہونے کے کچھ عرصے بعد سوویت یونین نے ایٹم بم بنا کر امریکہ پر واضع کر دیا کہ اب دوبارہ کوئی جاپان نہیں بنے گا۔جب دونوں نے ایک دوسرے کی ایٹمی صلاحیت کو جانچ لیا تو تو پھر ایٹمی جنگ سے بچنے کے لئے دوطرفہ معاہدے کیئے گئے۔
اس کا مطلب یہ تھا کہ کوئی بھی ملک کسی بھی حالت میں یکطرفہ طور پر ایٹمی ہتھیار استعمال نہیں کرے گا۔پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی ممالک ہیں دنیا بھر میں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ دونوں میں سے کوئی ایک بھی غلطی کر بیٹھا تو اس کا خمیازہ پوری دنیا کو بھگتنا پڑے گا۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے باہمی تنازعات پر ہر کوئی پریشان رہتا ہے۔دنیا کے ایک سو بائیس ممالک نے اقوام متحدہ کے ایک اجلاس میں جوہری ہتھیاروں پر پابندی کے عالمی معاہدے کی منظوری دی ہے۔ایٹمی ہتھیاروں کے حامل نو ممالک نے اس اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ایٹمی طاقتوں کا موقف ہے کہ ان کے ہتھیار خود پر کوئی ایٹمی حملہ ہونے کی صورت میں جوابی دفاع کے لیئے ہیں۔اور یہ کہ یہ ممالک اپنے طور پر ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی بھی مکمل پاسداری کرتے ہیں۔ دفاعی ماہرین جو ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف ہیں ان کی یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ ایٹمی ہتھیار کسی بھی وقت دنیا کے لیئے قیامت کا باعث بن سکتے ہیں۔