تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری بڑے بڑے اہم اداروں کی نجکاری تیزی سے جاری ہے محکمہ ٹیلی فون عرصہ قبل بک چکا جو کہ ملک کے سارے بجٹ کا تقریباً نصف اپنے ریونیو سے پورا کرتا تھااور قطعاً کسی سال بھی یہ محکمہ خسارے میں نہ گیا تھا ۔حکمرانوں نے اپنی یار باش کمپنی کو اونے پونے داموں نہیںبلکہ کل مالیتوں سے بیسیوں گناکم قیمت پر بیچ ڈالااب موجودہ حکومت کی بقیہ تقریباً پون سال کی مدت کے دوران حصص اور اداروں کی نجکاری کی بیس سے زائد ٹرانزیکشنز کو مکمل کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے تاکہ اگلے انتخابات تک مزید ڈھیروں مال حصہ بقدر جسہ کے مطابق حاصل کرلیںتاکہ اس وقت انتخابات میں ایک ایک ووٹر کو بھی خریدنا چاہیں تو کوئی مشکل پیش نہ آئے۔پی آئی کے حصص کی نجکاری کے لیے انتظامات تیزی سے جاری ہیں۔
پی آئی اے ٹریڈ یونینز کے تمام گروپس بشمول سودا کاری ایجنٹ اور پیاسی یونین وغیرہ سبھی نے چیخ و پکار کرکے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے ہڑتالیں کی اور دھرنے دیے جارہے ہیں۔مگر سرمایوں کے لالچ نے متعلقین کی آنکھوں پر چربی ہی نہیں چڑھا ڈالی بلکہ پٹی باندھ دی ہے اور وہ نجکاری کے علاوہ کوئی بات سننے سمجھنے توجہ تک دینے کے لیے تیار نہ ہے پاکستان سٹیل ملز کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کا بھی پلان انہی دس ماہ میں مکمل کیا جانا ہے(حالانکہ اس کو سابقہ دور میں سپریم کورٹ نے بکنے سے حکماً روک دیا تھا)ان کے علاوہ گجرانوالہ الیکٹرک کمپنی،کوٹ ادو پاور کمپنی میں بقیہ حصص کی فروخت ،ملک کی دیگر نو بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں حصص کی نجکاری کے ذریعے تین سو ستر ارب روپے سرکلر ڈیٹ کی ادائیگی اس طرح مکمل کرنی ہے یہ سارے نجکاری کے پلان انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ(آئی ایم ایف)کے ساتھ طے پانے والی ان معاشی اصلاحات کا حصہ ہے جنہیںایکسٹینڈڈفنڈفیزیبلٹی(EFF) قرض پروگرام کے خاتمے کے بعد مکمل کیا جانا ہے۔
“جس کا کھائیں اسی کا گائیں”کی طرح ہم سود در سود کی الجھنوںمیں اس قدرپھنس چکے ہیںکہ ہم محض کٹھ پتلیاں ہیںاور ہماری نام نہادگدھا گاڑی کو کسی اور ہی طرف سے ہانکا جارہا ہے ہماری حالت در اصل اس بندریا کا تماشہ دکھانے والے کی طرح ہوچکی ہے کہ بندریا کو جس طرح چاہے تماشادکھانے والانچاتا ہے اور اس سے اچھل کود کرواتا ہے اب جب ہم دنیا کے غلیظ ترین کافرانہ نظام کے تحت قرضوں کے بوجھ تلے دب ہی نہیں چکے بلکہ سودی نظام کے گہرے گڑھے میں مزید گرتے چلے جارہے ہیں تو اب ہمیں کوئی معجزہ ہی اس گھوم چکری سے نکال سکتا ہے خدانخواستہ خدانخواستہ ہمارے حکمرانوں کی عیاشیوں مال توڑ پروگرام ،کھربوں ڈالرز بیرون ملک دفنانا،اپنی من مرضی کی سکیموں پر خزانوں کے لٹانے کی وجہ سے ہم اگر پورے ملک کے ادارے بھی اغیارکو بیچ ڈالیں تب بھی سرخرو نہ ہو سکیں گے۔
عوام بیچارے اسی بندر نچانے والے کی ڈگڈگی پر جھومنے اور بھوکے پیاسے ننگے رہ کر بھی ڈانس کرنے پر مجبور محض ہیں۔دبئی میں پاکستان اور آئی ایم ایف حکام کے درمیان پاکستانی معیشت کے جائزے کے دوران نجکاری کے ان تمام پلان پر اتفاق رائے ہوچکا ہے تمام قیمتی ادارے اونے پونے داموں حکمران ،ان کے حواری حتیٰ کہ ان کے کارندے اور ان کے ہمجولی ہی خرید لیں گے تاکہ بقیہ پون سالہ اقتدار میں تمام قیمتی ادارے لازماً فروخت کرکے باہر کسی اور ملک کی پانامہ لیکس جیسی کمپنیوں میں مال دفن کرسکیں۔اس طرح انکی آئندہ کئی نسلیں ان حرام سرمایوں کوکھاتی اور موج میلہ اڑاتی رہیں گی۔
سرمایہ کے جوہڑ میںغوطے لگاتے افراد بھول جاتے ہیں کہ شہنشاہ ایران کا کیا حشر ہوا تھا اور کئی ممالک کے ڈکٹیٹر اور بادشاہ جب مال متال سمیٹ کر ملک سے چوری بھاگنے لگے تو انہی کے تابعدار محافظوں نے ان کے جسموں کے چیتھڑے اڑا ڈالے تھے اور ایسی چوری چھپے کی وارداتوںسے کمایا ہوا مال کب کسی کے کام آیا ہے؟گیلانی زرداری اور راجہ رینٹل اور ان کے ساتھیوں نے اربوں ناجائز ذرائع سے کمائے اب لوگوںکے دلوں سے اتر چکے اس طرح کسی بھی عیاش حکمران نے حرام مال پر اور کتنے عرصہ جی لینا ہے در اصل یہ سودی سرمایہ دارانہ نظام ہی کا”کمال ” ہے کہ غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتے چلے جاتے ہیں تو پھر سرمایوں کا تفاوت اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ بپھرے ہوئے بھوکے ننگے بدحال غرباء اللہ اکبر اللہ اکبر کے نعرے لگاتے تحریک کی صورت میں نکل پڑتے ہیں اور بڑے بڑے بت الٹ جاتے ہیں اور ظالم سود خور صنعتکاروں وڈیروں خانوں آمروں کو ان کی اپنی سرزمین بھی دفن ہونے کی جگہ دینے کوتیار نہیں ہوتی۔