تحریر : راجہ محمد وسیم خان محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت زیادہ پرانی بات نہیں ۔جذباتی ماحول اور سوگوار فضا میںکچھ لوگ پاکستان نہ کھپے کا نعرہ لگا بیٹھے ۔عالم یہ تھا کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر اہم ذمہ داران بھی بے سروپا گفتگو کرتے پائے گئے۔ چونکہ ملک کے اندر سوگ والم کی کیفیت تھی تو اس طرزعمل پر لے دے سے گریز کرتے ہوے پاکستانی میڈیا نے معاملے درگزر کیا۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا اور اس پر میڈیا نے بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوے معاملے کو اچھالا نہیں۔ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی پر جب آزادکشمیر پیپلز پارٹی نے کہا کہ ہم کیسے اس ملک کے ساتھ الحاق کرتے ہیں تو اسے جذباتیت سے گردانا گیا ۔حکومت ختم ہونے پر الحاق کے سب سے بڑے دعوے داروں کی جب حکومت ختم ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اگر حالات یہی رہے تو پھر لوگ مقبوضہ کشمیر ہجرت کر جائیں گے لیکن بات بڑی نہیں ۔ جنرل ضیاء الحق کے سامنے ہمارے ایک بڑے لیڈر نے بنگلہ دیش سے ملتی جلتی بات کی تو پھر جواب ایسا تھا کہ شائد لکھنے سے قاصر ہوں تو اسے بھی نہ تو غداری سے تشبہی دی گئی نہ اس پر حاشیہ برداری کی گئی۔
بھلا ہو آج کے پاکستانی میڈیا کا جس کی موجودگی میں ملک کو دشمن کی ضرورت نہیں۔ اس نے کابلی مارکہ اینکرز اور تجزیہ نگار اتنی بڑی تعداد میں پیدا کیے کہ حقیقی معنوں میں صحافی اور تجزیہ نگار منظر عام سے غائب ہوتے چلے گئے۔کمرشلائزیشن کے تابع ریٹینگ کی دوڑ میں نجی ٹی وی چینلز متعدد بار ملکی سلامتی کو داؤپر لگا چکے ہیں ۔ اس سے بڑھ کر کیا ظلم ہوگا کہ بات پاکستان اور کشمیرکے رشتوں تک جاپہنچی ہے جس سے گزشتہ عرصے میں ہونے والی او چھل کود نے سخت زک پہنچائی ہے جس سے ہر کشمیری اور محب وطن پاکستانی دکھی ہے۔وزیراعظم آزادکشمیر جو کہ مسلم لیگ نون آزادکشمیر کے صدر اور موجودہ دورمیں ریاست کے مقبول ترین لیڈر کے طور پر جانے جاتے ہیں سے ایک ایسی بات منسوب کی گئی جو انہوں نے کہی ہی نہیں تھی۔
وزیراعظم نے دوسرے ہی دن اس کی نہ صرف باضابطہ طورپر وضاحت کی بلکہ الحاق پاکستان کو اپنے ایما ن کا حصہ گردانا ،اس کی خاطر اپنی اور اپنے آباو اجداد کی جدوجہد گنوائی جس سے آزادکشمیر اور مقبوضہ کشمیر کا ہر باشعور شہری واقف ہے ۔پاکستانی میڈیاکی اکثریت نے اس وضاحت کو نمایاں کوریج کے ساتھ شائع کیا۔اس پر بہت سارے بے روزگاروں کی دوکانیں کھل گئیں ۔تحریک انصاف کے سربراہ نے ریاست کے منتخب وزیراعظم کے خلاف انتہائی گھٹیا اور اخلاق سے گری زبان استعمال کی جس کا جواب لیگی کارکنان نے بھی اسی انداز سے دیا ۔کچھ نام نہاد تجزیہ نگاروں نے اس پر غداری اور آرٹیکل چھ کے تحت کاروائی کے راگ لاپنے شروع کر دیے ،عقل کے اندھوں میں پاکستان کے نام نہاد اعلی قانون دان ،سیاستدان بھی شامل تھے جس سے ان کی کشمیر سے دلچسپی کا بھی پتہ چلتا ہے کہ انہیں وزیر مشیر رہتے عمریں گزر گئیں مگر آزادکشمیر کے انتظامی ڈھانچے کے بارے میں نابلد ہی رہے ۔حالات کو دیکھتے ہوے سوشل میڈیا پر اسے پاکستان مخالف ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔
قوم پرستوں نے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوے اپنے اندر کاغبار نکالا ۔لیگی کارکنان نے جذباتیت میں حدیں عبور کیں اور آزادکشمیر کے تمام اہل علم و دانش،ساری سیاسی جماعتوں کے کارکنان ،بارکونسل ،بار ایسو سی ایشنز نے وزیراعظم آزادکشمیر کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈے کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور اسے پاکستان دشمنی سے تعبیر کیا ۔حالات کی نزاکت دیکھتے ہوے پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے عمران خان کے بیان کی مذمت کی حالانکہ ان کی جماعت نے پہلے وزیراعظم آزادکشمیرکے خلاف مظاہرے کیے تھے۔
راجہ محمد فاروق حیدر خان کے بارے میں یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ان کے والد راجہ محمد حیدر خان تحریک آزادی کشمیر کے اہم راہنماوں میں سے تھے ان کا شمار ریاست جموں و کشمیر میںپہلی مرتبہ پاکستانی پرچم لہرانے والوں میں سے تھا جنہوں نے اپنی زندگی میں آمریت کا مقابلہ کیا ،عوامی حقوق کی خاطر جیلیں کاٹیں مگرنہ تو اپنے ضمیر کا سودا کیا نہ پاکستانیت پر حرف آنے دیا ۔
بھاڑے کے ان ٹٹوں کو کیا معلوم کہ کشمیری قوم نے پاکستان کے ساتھ الحاق کے اس وعدے کی کتنی بھاری قیمت ادا کی اور اب تک کررہے ہیں ۔نام نہاد ڈرامے باز ابلیس کی شکل نما اینکرز کیا جانیں کہ سنگینوں کے ساتے تلے سبز ہلالی پرچم لہرانے والوں کے دلوں پر کیا گزرتی ہے جب آپ انہیں اپنی جیب کی گھڑی سمجھ کر ان پر حاشیہ برداری کرتے ہیں۔
لوٹا کریسی اور ضمیر فروشی کی داستانیں بننے والے کچرا نما سیاستدان کیا جانیں کہ غیر ت و حمیت کس چیز کا نشان ہے جس کی خاطر راجہ محمد فاروق حیدر خان اس کے قبیلے اور گھرانے نے اپنی جانیں تک قربان کیں مگر اپنی وفاداری،اپنی غیر ت اور اپنے وعدوں کا ہمیشہ پاس رکھا ۔
جناب محمد نواز شریف کی نااہلی کے بعد راجہ محمد فاروق حیدر خان کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈے سے ریاست کا ماحول انتہائی جذباتی اور دکھی تھا لیکن اس کے باوجود وزیراعظم آزادکشمیر نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ پاکستان سے تعلق ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ کسی سیاسی جماعت یا اس کے سربراہ کی وجہ سے اس میں رخنہ پڑھ سکتا ہے نہ کوئی ٹی وی چینل یا میڈیا اس میں بگاڑ پیداکر سکتا ہے۔ ہمارا تعلق ریاست پاکستان کے ساتھ ہے اس کے شہریوں کے ساتھ ہے جنہوں نے ہر مشکل وقت میں ہماری مدد کی۔
اس میںکوئی شک نہیں کہ سابق وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف نے ریاست ستر سالہ دیرینہ اور حل طلب معاملات کی جانب پہلی مرتبہ ٹھوس پیش رفت کی ،ترقیاتی بجٹ دوگنا کیا جانا ہویا پھر آئینی ترامیم کے لی کمیٹی بنانا ،قومی اقتصادی کونسل سے وسائل میں اضافہ ہو یا این ایف سی میں سے ریاست کا حصہ بڑھانا یہ وہ مشکل اور دیر طلب مسائل تھے جن پر محمد نواز شریف نے عملی پیش رفت کی جس کے باعث ہر ریاستی شہری یہ کہنے پر ضرور مجبور ہوا کہ کشمیری النسل وزیراعظم نے اس کا عملی ثبوت بھی دیا۔برہان وانی کا ذکر اقوام متحدہ میں کرنا ہویا اقوام متحدہ میں جانے سے قبل مظفرآباد آکر کشمیری قیادت سے مشورہ کرنا محمد نواز شریف کے اقدامات غیر معمولی تھے انہی کی بدولت وزیراعظم آزادکشمیر اور وزیراعلی گلگت بلتستان نے مشترکہ پریس کانفرنس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنے دکھ اور رد عمل کااظہار کیا جس کو غلط رنگ دیاگیا ۔
پاکستان کی ریاست اور قومی سلامتی کے اداروں کو احساس ہونا چاہیے کہ ریاستی قیادت کے خلاف مہم جوئی کے نتائج خطرناک سامنے آسکتے ہیں۔ مستقبل میں ایسے یڈوینچر سے گریز کیاجائے۔تمام ذمہ دار ادارے بالخصوص میڈیا بالخصوصی سلامتی کے معاملات پر پیمرا بھی ریڈ لائنز طے کرے لوگوں کی حب الوطنی پر شک کیا جاتا رہا اور غداری کے تمغے دیے جاتے رہے تو بعید نہیں کہ قومی یکجہتی کی فضا برقرار نہ رہے۔ مضمون نگار وزیراعظم آزادکشمیر کے پریس سیکرٹری ہیں۔