گائے اور ہم

Cow

Cow

تحریر : سید صفوان غنی
”گائے ایک پالتو جانور ہے۔ اس کے دو کان، دو آنکھ ، چار پیر ہوتے ہیں۔ اس کی ایک پوچھ بھی ہوتی ہے۔ گائے دودھ دیتی ہے جس سے ہم دہی، مٹھائی،پنیر اور مکھن بناتے ہیں۔”

یہ وہ چند جملے ہیں جس سے ہو کر ہمارابچپن گزرا ہے۔بلکہ شکر بجا لائیے کہ خیر و عافیت سے ہم اور آپ اس دور سے گزر گئے۔ابھی کے وقت میں ایسا مضمون لکھتے تو خیر عافیت سے گزرنا تو دور زندگی سے گزر چکے ہوتے۔دوسری بات جو احتیاطاً عرض کرنی ہے وہ یہ ہے کہ اپنے بچوں سے بھول سے بھی اب ایسا مضمون یا” نبندھ”ہرگز ہرگز مت لکھوائیے گا۔ آپ پر ہندوستانی دفعہ 295A (مذہب کی توہین اور دل آزاری کی دفعہ )لگ سکتی ہے۔اگر اسکول کی طرف سے مضمون لکھنے کو دیا جائے تو انکار کر دیں۔ بچے کی ڈائری میں لکھ دیںکہ ہم تمام مذاہب کا احترام کرتے ہیںاور کسی کی ماں کے متعلق دو کان، دو آنکھ،مٹھائی ،پنیر وغیرہ جیسے توہین آمیز الفاظ کا استعمال نہیں کر سکتے۔

برائے مہربانی کوئی اور مضمون لکھنے کو دیں۔اگر اسکول کی طرف سے اصرار کیا جائے تو مضمون کچھ یوں لکھوائیں: ”مقدس گائے ہمارے ملک کی ماں ہے۔ اس کی حفاظت کرنا ہم سب پر فرض ہے۔ اس مندی کے دور میںبھی گائے ماں کی وجہ سے ہندوستان کے کئی نوجوانوں کو روزگار ملا ہے۔نہ صرف نوجوانوں کو روزگار بلکہ سیاست دانوں کو حکومت بھی ملی ہے۔گائے ماں کے تقدس کا یہ عالم ہے کہ ان کے پیشاب میں بھی شفا ہے۔ہندوستان کے سائنسداں یہاں کے سیاست دانوں کے کہنے پر گوبر میں بھی شفا تلاش رہے ہیں۔۔۔”

یاد رہے مضمون میں کہیں بھی لفظ’جانور’ کا استعمال نہ کریں۔ ایسا کرنے سے دوسرے ‘جانور’ آپ کے پیچھے پڑ سکتے ہیں۔کسی بھولے بھالے سیدھے شخص کو اب ”اللہ میاں کی گائے” کہنا چھوڑ دیں کیونکہ اولاً تو ایک شخص ماں نہیں ہو سکتادوئم آپ قومی ماں کی توہین نہیں کر سکتے۔

ابھی چند دن قبل بھینس اور بیل ملک کی موجودہ خراب سیاسی اور مذہبی فضا کے متعلق بات کر رہے تھے۔ بھینس نے مسلمانوں اور دلتوں پر ہو رہے مظالم پر اپنی خفگی ظاہرکرتے ہوئے راحت اندوری کا ایک شعر پڑھا۔۔

سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
بیل بھی اپنی رنجیدگی پوشیدہ نہ رکھ سکا۔ گائے کے نام پر اس کے ساتھ ہو رہا سوتیلا سلوک اس کی زبان پرہی آگیا۔اس نے برجستگی سے راحت اندوری کے شعر کی کچھ یوںپیروڈی کی:
سبھی کا گوبر ہے شامل یہاں کی مٹی میں
اکیلے گائے کا ہندوستان تھوڑی ہے

کتنا عجیب اتفاق ہے کہ آج کے دور میں جانور اور انسانوں کے بیچ بھی مسابقت چل رہی ہے۔اس معاملہ میں فی الحال گائے انسانوں پر سبقت لے جاتی دکھ رہی ہے۔اس نے وہ مذبح جو اس کے لئے مخصوص تھے اسے انسانوں کی طرف موڑ دیا ہے۔ اب ان مذابح میں اللہ کے نام پر گائے نہیں بلکہ آستھا کے نام پر انسان کاٹے جا رہے ہیں۔

میرے خیال میں اب وقت آگیا ہے کہ ملک میں وزارت ِ گائے کا بھی انتظام کیا جائے۔لاکھوں اسامیاں اس کے ذریعہ پیدا کی جاسکتی ہیں۔قتل گائے کو انسانی حقوق کے دائرے میں لایا جائے۔ماں کا قتل ایک سنگین جرم ہے۔اسے حقوق نسواں یا فیملی ابیوزکے تحت بھی لایا جا سکتا ہے۔

گائے کا حقیقت میں کوئی پرسان حال نہیں ہے۔میں تو چلیں ڈرپوک ٹھہرا۔ سڑکوں پر چل رہی گائے سے بیس پچیس گز کی دوری بنا کر چلتا ہوں۔ڈر گایوں سے نہیں ان کے گرد و نواح میں موجود لوگوں سے لگتا ہے۔ گائے تو گائے ہی ہوتی ہے گائے کے نام پر لوگ بھیڑ یے ہوتے ہیں۔اب تو ہندوستان میں بھیڑہی بھیڑیا بن چکی ہے۔سڑکوں اور بازاروں میں یوں ہی بھٹک رہی گایوںکو دیکھ کر دل خون کے آنسوروتا ہے۔ آج ساحر لدھیانوی اگر زندہ ہوتے تواپنے ملک کے سیاست دانوں کو ضرور یہ پیغام دیتے:

تم نے جس گائے کو مقتل سے بچانا چاہا
آج وہ کوچۂ بازار میں آنکلی ہے

تحریر : سید صفوان غنی