جنگ بھی رہے اور امن بھی قائم ہو

Khawaja Asif

Khawaja Asif

تحریر : قادر افغان
پاکستان کے نئے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے پاکستانی و کشمیری عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ پاک ، بھارت تعلقات کا دارومدار کشمیری عوام کی خواہشات اور اقوام متحدہ کی قرارداوں کے مطابق تنازع کشمیر کے تصفیے پر ہے۔وزارت خارجہ کے ترجمان نے اُن امریکی الزامات کو مسترد کردیا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں صرف “مخصوص”لوگوں کے خلاف کاروائی کررہا ہے۔پاکستان کے خلاف الزامات کے حوالے سے کابل ، بھارت اور امریکہ نے وتیرہ بنا لیا ہے اور مسلسل الزام تراشیوں سے پاکستان کی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں ہزاروں جانوں کی قربانی اور اربوں ڈالرز کے نقصان کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ امریکی ابلاغ میں کرائے کے فوجی بھیجنے کی تجویز اور افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کو کُلی اختیار دینے سے متعلق خبریں منظر عام پر آچکی ہیں ۔ عالمی ابلاغ کے مطابق امریکہ، افغانستان میں روایتی جنگ میں شکست کے بعد کرائے پر فوجی بھیجنے کی حکمت عملی پر غور کررہا ہے۔

کئی ہفتے قبل “بلیک واٹر” کے چیئرمین ایرک پرنس نے تجویز دی تھی کہ افغانستان میں جنگ کو کرائے پر دے دیا جائے۔افغانستان کے حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے کسی ٹھوس حکمت عملی کا ابھی تک سامنے نہ آنے اس بات کی غمازی کررہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ مشکل اور پیچیدہ صورتحال کا شکار ہے۔ امریکہ میں بعض بدنام زمانہ کمپنیاں (بلیک واٹر وغیرہ) ٹرمپ انتظامیہ کی حوصلہ افزائی کررہی ہے کہ افغان جنگ کو مکمل طور پر نجی کی جائے۔ وہ ایک معاہدے کی رو سے پینٹاگون سے اجازت لینا چاہتی ہے کہ جنگ کو آگے بڑھانے کی خاطر افغانستان کو کرائے کے قاتل بھجوادے۔ کابل انتظامیہ کا سربراہ بھی اس عمل میں ان کیساتھ برابر کے شریک ہے۔ انہوں نے ٹرمپ انتظامیہ کو توقع دی ہے کہ افغانستان سے روگردانی نہ کریں، کیونکہ افغانستان میں وسیع قدرتی وسائل اور معدنی ذخائر موجود ہیں،انہیں نکلوانے سے امریکہ نہ صرف اپنی اخراجات کو پورے کرے گا، بلکہ امریکی سرمایہ کار امیرترین ہونگے۔

2007میں سے افغانستان میں ایسے عمل کی آزمائش کی جا رہی ہے گزشتہ سولہ برسوں میں امریکی انتظامیہ نے کرائے کے فوجیوں سے مختلف نوعیت کے کام لئے ہیں جس میں جاسوسی،تکنیکی ، سیاسی اور مشاورتی مہارت سمیت دھماکہ خیز مادوں کے استعمال کرنے کی صلاحیت بھی شامل ہے ، امریکہ نے باقاعدہ عراق جنگ میںمخالفین کو قتل کرنے کے لئے بھی بلیک واٹر کا کھلا استعمال کیا تھا اور افغانستان میں بھی بلیک واٹر سمیت کئی کرائے کی فوجی مہیا کرنے والی ایجنسیوں نے افغانستان میں امریکہ کیلئے خدمات سر انجام دے رہی ہیں ۔ پاکستان میں بھی بلیک واٹر کے کئی خفیہ اور نمایاں دفاتر ماضی کا حصہ بنے رہے جہاں بلیک واٹر کے ایجنٹس مختلف ناموں سے پاکستان میں کہیں اور کسی بھی جگہ جا سکتے تھے اور انھیں مکمل سفارتی استثنا ء بھی حاصل ہوتا تھا۔گذشتہ دنوںشکار پور میں خودکش دھماکے سے قبل گرفتار کیے گئے نوجوان لڑکے عثمان نے پولیس کو دہشتگرد نیٹ ورک کے حوالے سے اہم معلومات دی ہیں، کہ مشرق افغانستان سے لیکر پاکستان کے جنوبی صوبے سندھ تک دہشت گرد پھیلے ہوئے ہیں، جہاںٹریننگ کیمپ اور بم بنانے کی فیکٹریاں بھی موجود ہیں، پولیس کو یقین ہے کہ مذکورہ نیٹ ورک جنوبی ایشیامیں داعش کا پروپیگنڈہ پھیلانے میں ا س کی مدد کرچکا ہے۔پولیس کا کہناہے کہ پاکستانی نیٹ ورک نے ا نتہا پسند گروپوں سے تعلق رکھنے والے کئی نامور جنگجوئوں کو ملادیاہے اور دولت اسلامیہ کے نظریے کو فروغ دینے کیلئے معاونت کر رہا ہے، عثمان کے اقرار جرم میں دولت اسلامیہ کا براہ راست نام نہیں لیا گیا تاہم پولیس کہتی ہے اسے یقین ہے کہ جس نیٹ ورک نے اسے بھرتی کرکے تربیت دی وہی پاکستان میں ہونے والے 5 مہلک فرقہ وارانہ بم دھماکوں کے پیچھے تھا ،جس میں سے 4 کی ذمہ داری شام اور عراق سے تعلق رکھنے والے ایک گروپ نے قبول کی تھی۔ محکمہ انسداد دہشتگردی کے سینئر افسرراجہ عمر خطاب کاکہناہے کہ داعش کا پاکستان میں کوئی ڈھانچہ نہیں،یہ فرنچائز نظام کے تحت کام کر رہی ہے اور یہ ماڈل پاکستان میں استعمال کی جارہا ہے۔

ان خدشات کا اظہار امارات اسلامیہ افغانستان نے بھی کیا ، ان کا کہنا ہے کہ” اس سے قبل بھی افغانستان میں امریکہ کے سویلین اور فوجی ٹھیکیدار ہوا کرتے۔جن کی تعداد 2012ء میں ایک لاکھ دس ہزار سے زیادہ تھی۔ اب بھی پچیس ہزار کرائے کے قاتل موجود ہیں، لیکن کسی صورت میں بھی ان سے کامیابی حاصل نہ کرسکی۔ اس تجربے کو یاد رکھنا چاہیے۔ اگر امریکہ سوچتی ہے کہ افغان عوام پر ظلم اور عوام کے درمیان دہشت پھیلانے سے انہیں میدان جنگ میں کامیابی نصیب ہوگی اور یا ہارنے والی جنگ کرائے کے قاتلوں سے جیتے جائیگی، تو یہ عظیم غلطی ہوگی”۔کابل انتظامیہ کے برعکس افغان سینیٹ نے نیٹو کی جانب سے افغانستان میں مزید افواج بھیجنے کے فیصلے کو مسترد کر دیا ہے۔

افغان سینیٹ کے اجلاس میں مزید ہزاروں نیٹو فوجیوں کو افغانستان بھیجنے کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ” افغانستان میں غیر ملکی افواج کی تعداد بڑھانے کا مقصد ملک میں جاری جنگ کو جاری رکھنا اور اسے مزید ہوا دینا ہے۔ افغان سینیٹ نیٹو کے اس اقدام کی بھرپور مذمت اور مخالفت کرتا ہے”۔

پاکستان اور افغانستان میں ایک سوچی سمجھی عالمی سازش کے تحت کرائے کے فوجیوں کی مدد سے بد امنی اور دہشت گردی کی کاروائیاں کروائی جا رہی ہیں ۔ بد قسمتی سے افغانستان اور پاکستان کے درمیان ماضی کے مقابلے میں تعلقات اُس انداز میں استوار نہیں ہوسکے ، جس کی امید کی جا رہی تھی ، بھارت کی جانب سے مسلسل اثر رسوخ اورسازشوں نے افغانستان کو پاکستان سے بدظن کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ موجودہ نئے وزیر خارجہ کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ برسوں کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں اور کشیدہ تعلقات کو دس مہینے میں دوستانہ اور برادرانہ ماحول میں بحال کراسکیں ، لیکن انٹرنیشنل کیمونٹی اس بات کو اچھی طرح جانتی ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لئے پاکستان کا کردار ناگزیر ہے اور پاکستان سے بہتر کوئی دوسرا سہولت کار نہیں ہوسکتا ۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی کی جانب سے نئے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو وزرات اعظمیٰ میں کامیابی پر مبارکباد میں اس عزم کا اعادہ تو کیا گیا کہ دونوں ممالک دہشت گردی کے خلاف مل کر کام کریں گے ۔ لیکن اس کی عملی شکل اُس وقت ہی ممکن ہے جب افغانستان ، بھارت کو اپنے کندھے استعمال کرنے سے روکے اور اپنے ملکی مفاد میں ازخود فیصلے کرے۔

حزب اسلامی کے لیڈر گلبدین حکمت یار کے ساتھ کابل حکومت کا معاہدہ بھی اسی ضمن میں تھا کہ افغانستان میں سیاسی سرگرمیاں بحال کرنے میں حزب اسلامی اپنا کردار ادا کرے گی ، لیکن افغانستان سے ملنے والی اطلاعات اور حزب اسلامی کی حالیہ پریس کانفرنس سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ حزب اسلامی اور کابل حکومت کے درمیان تنازعات پیدا ہوچکے ہیں ۔ حزب اسلامی نے امارات اسلامیہ کے قائدین سے ملاقاتوں کا اظہار کیا تھا جیسے امارات اسلامیہ کے ترجمان نے یکسر رد کرتے ہوئے کہا کہ” امارات اسلامیہ کے کسی رہنما سے حزب اسلامی کے کسی رہنما ء سے ملاقات نہیں ہوئی” ، انھوں نے بارہا قطر دفتر کا حوالہ دیا ہے کہ” سیاسی معاملات اور افغانستان میں امن کے قیام میں مذاکرات کیلئے قطر میں سیاسی دفتر موجود ہے” ۔ انھوں نے کابل میں سعودی عرب کے نائب سفیر سے بھی افغانستان میں قیام امن کے مثبت کردار ادا کرنے کو کہا کہ” سیاسی دفتر کا قیام ہماری امن سے وفاداری کا ثبوت ہے”۔ان تمام زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں امریکہ کے دوہرے کردار کو بھی دیکھنا ہوگا ۔ افغانستان میں امن کے قیام میں سب سے بڑی رکائوٹ خود امریکہ ہی ہے۔

امریکہ اپنے مفادات کے لئے افغانستان میں امن نہیں چاہتا اور امریکہ کی شہ پر ہی بھارت خطے میں اچھل کود کررہا ہے اور افغانستان کے امن سے جڑے پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی سازش سے باز نہیں آرہا ۔ مقبوضہ کشمیر ہو یا لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزی سمیت مغربی سرحدوں پر بھی بھارتی شر انگیزیوں نے پاکستان میں بے امنی کو فروغ دینے میں شرمناک کردار ادا کیا ہے۔

مختلف کالعدم تنظیمیں اور جماعتیں ہی دراصل کرائے کے فوجی ہیں ، جو افغانستان کی سرزمین کو استعمال کرکے پاکستان میں مسلسل دہشت گردی کی کاروائیاں کررہا ہے ۔ افغانستان میں داعش ، جس طرح عام شہریوں کی ہلاکتوں میں ملوث ہے ، اس کی پشت پناہی میں امریکی کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ داعش کا وجود میں آنا امریکہ کی ہی مرہون منت ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ مسلسل افغانستان میں اپنی فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کررہی ہے ،باوجود اس بات سے آگاہ بھی ہے کہ ایک لاکھ دس ہزار فوجی جدید ترین سامان ِ حرب میسر ہونے کے باوجود افغانستان پر قبضہ نہیں کرسکے تویہ چند ہزار فوجی کس طرح افغانستان پر قابض ہوسکتے ہیں ، افغانستان کی کابل حکومت اپنی مرضی کے فیصلے نہیں کرسکتی ، پارلیمنٹ کا کسی بھی قسم اہم کردار نہیں ہے۔

کابل حکومت چاہتی ہے کہ جنگ بھی ہو اور امن بھی قائم رہے تو یہ امریکہ اور کابل حکومت کی بھول ہے۔ امن کے لئے تمام تر جنگیں مذاکرات کی میز پر ہی ختم ہوتی ہیں ، 39برسوں میں افغانستان میں مستقل امن اسی وجہ سے قائم نہیں ہوسکا کیونکہ عالمی استعماری قوتیں اپنی مخصوص مفادات کیلئے مسلسل افغانستا ن اور پاکستان کی سرز مین کو تختہ مشق بنائے ہوئے ہیں ،اس صورتحال میں امریکہ کی جانب سے پاکستان پر الزام تراشیاں ، اور ہزاروںپاکستانیوں کی قیمتی جانوںاور اربوں ڈالرز کے نقصانات کو نظر انداز کرنا انتہائی مایو س کن رویہ ہے۔ اس ضمن میں امریکہ و بھارت کی جانب سے کرائے کے فوجیوں کو افغانستان وپاکستان کے خلاف فری ہینڈ دینے کی تجاویز پر غور کی اطلاعات باعث تشویش ہیں کہ اس سے بے مقصد و لایعنی جنگ کو مزید طوالت ملے گی ،پاکستان کو جہاں اپنے نظریاتی اساس کو محفوظ رکھنا ہے وہاں ملکی سرحدوں کی حفاظت کے لئے تمام پاکستانی شہری بلا امتیاز رنگ و نسل کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے کا عزم و حوصلہ رکھتے ہیں۔پاکستان کی مسلح افواج بھی اس عزم کو واشگاف لفظوں میں ظاہر کر چکی ہے۔

Qadir Khan Yousafzai

Qadir Khan Yousafzai

تحریر : قادر افغان
qakhs1@gmail.com