تحریر: مرزا روحیل بیگ چودہ اگست 1947 وہ دن ہے جس دن آگ و خون کی ایک وادی سے گزر کر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں بے مثال قربانیوں کے بعد اپنے لیئے ایک الگ وطن حاصل کیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے نہ صرف انگریز راج کو شکست دی بلکہ کانگریس، نیشنلسٹ مسلمانوں اور علمائکرام کی مضبوط جماعت بھی ان کے مد مقابل تھی۔ تاہم مسلمانوں کی فتح ہوئی اور پاکستان مسلم ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا۔14 اگست کا دن پاکستان میں قومی تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے۔اس دن عوام پاکستانی پرچم کو فضاء میں بلند کرتے ہوئے اپنے قومی محسنوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے مسلمانوں کے خلاف انتقامی کاروائیوں کا آغاز کر دیا۔
سارے فساد کی ذمہ داری مسلمانوں پر ڈال دی۔مسلمانوں کی املاک اور جائیدادیں ضبط کر لی گئیں۔ان کو ملازمتوں سے نکال دیا گیا۔مسلمانوں کے لیئے سرکاری ملازمتوں پر پابندی عائد کر دی گئی۔مسلمانوں کو سیاسی تنہائی کا شکار بنایا گیا۔ان حالات میں سر سید احمد خاں نے مسلمانان برصغیر کی فلاح و بہبود کا بیڑہ اٹھایا۔اور علی گڑھ یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔جس کا مقصد مسلمانوں کی تعلیمی، سماجی اور معاشی حالت میں بہتری لانا تھا۔سر سید احمد خاں ہندوؤں اور مسلمانوں کو دو قومیں سمجھتیتھے۔سر سید احمد خاں کے اس قومی نظریے کی سیاسی بنیاد قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال نے رکھی۔علامہ اقبال کی آواز قوم مذہب سے ہے نے مسلمانوں کے شعور کو جلا بخشی۔قائد اعظم نے اس نظریے کو سیاسی طور پر اتنے مضبوط طریقے سے پیش کیا کہ انگریزوں کو پاکستان کے مطالبے کے سامنے ہار ماننا پڑی۔قائداعظم نے فرمایا کہ مسلمان اقلیت نہیں وہ قوم کی ہر تعریف کے مطابق ایک قوم ہیں۔قائد نے فرمایا کہ ہندوستان کبھی ایک ملک نہیں رہا اور نہ اس کے رہنے والے ایک قوم۔ان حالات میں مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیئے 30 دسمبر 1906 میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا۔1928 میں نہرو رپورٹ پیش کی گئی جس پر اگر عمل ہوتا تو مسلمانوں کے حقوق متاثر ہونے کا خدشہ تھا۔نہرو رپورٹ کے جواب میں قائداعظم محمد علی جناح نے 1929 میں گیارہ نکات پیش کیئے۔1930 میں علامہ اقبال نے الگ مسلم ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا۔23 مارچ 1940 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے لاہور اجلاس میں قرارداد پاکستان منظور کی گئی۔اس قرارداد نے قیام پاکستان میں اہم کردار ادا کیا۔
اس جدوجہد کے نتیجے میں 14 اگست 1947 کو پاکستان کا قیام وجود میں آیا۔تقسیم ہند کے وقت جو ظلم و ستم ہندوستانی سرکار کی زیر سرپرستی مسلمانوں پر ڈھائے گئے اس کی نظیر ملنا محال ہے۔ ہندوؤں کو کئی ماہ پہلے علم تھا کہ پاکستان ضرور بنے گا۔14 اگست 1947 کے ساتھ ہی مسلمانوں سے نفرت اپنی انتہاؤں کو چھونے لگی۔اور ان کو کہا جانے لگا کہ مسلمانو تمہارا نیا وطن بن گیا ہے ہندوستان سے چلے جاؤ۔مسلمان اپنا جتنا اثاثہ ساتھ لا سکتے تھے وہ بیل گاڑیوں اور دوسری سواریوں پر لاد کر بچوں اور عورتوں کو سواریوں پر بٹھا کر اور آنکھوں میں نئے وطن کے خواب سجا کر رواں دواں ہو گئے۔ راستے میں مسلح ہندو برچھیاں،کرپانیں اور تلواریں ہاتھوں میں لیئے معصوم اور نہتے مسلمانوں کو تہ تیغ کرتے۔جن مسلمانوں نے بذریعہ ریل نقل مکانی کی ان کے ریلوے اسٹیشنز پر ٹرینوں کو روک کر قتل و غارت شروع کر دیتے اور جب گاڑیاں لاہور پہنچتیں تو بوگیاں خون سے بھری ہوتیں۔ یہ دیکھ کر مسلمانوں کا لہو خول اٹھتا اور دونوں اطراف سے قتل و غارت کا بازار گرم ہو گیا۔قیام پاکستان کے بعد ہندوستان کے سیاستدان یہ کہنے لگے کہ پاکستان چل نہیں سکے گا۔
یہ نوزائیدہ مملکت ہے۔ہندوستانی سیاستدان یہ کہنے میں حق بجانب تھے کیونکہ تقسیم ہند کے وقت پاکستان کے حصے میں جو کچھ آیا تھا وہ کسی طور بھی ایک نئی مملکت کو قائم رکھنے کے لیئے کافی نہیں تھا۔ہندوستان کی بیوروکریسی انگریزوں اور ہندوؤں پر مشتمل تھی۔اور جو پڑھے لکھے مسلمان تھے ان کا تعلق ایسے علاقوں سے تھا جو پاکستان کا حصہ نہیں بنے تھے۔ایسے حالات میں ایک نئی مملکت کا چلنا محال دکھائی دیتا تھا۔اس حوالے سے ہندوستانی خواہشات پوری نہ ہو سکیں اور پاکستان آگے بڑھتا رہا۔آج پاکستان ایک اہم ایٹمی ملک ہونے کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر جگمگا رہا ہے۔مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جو جذبہ قیام پاکستان کے وقت تھا وہ آج ہمیں نظر نہیں آتا۔اس وقت ہم ذات،پات اور لسانی گروہوں کی بجائے ایک ملت تھے۔جو کلم? طیبہ کی بنیاد پر اکھٹے ہوئے تھے۔کلم? طیبہ کی بنیاد پر برصغیر کے مسلمان اکٹھے ہوئے جس کے باعث ہمیں الگ وطن ملا۔لیکن آج وہ جذبہ ہم میں موجود نہیں۔آج ہم ذات،پات اور لسانی گروہوں میں تقسیم در تقسیم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔قائداعظم محمد علی جناح نے اسلامیہ کالج پشاور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ” ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیئے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔ مگر آج ہم اسلام کے تابندہ اور روشن اصولوں سے منہ موڑ چکے ہیں۔
ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والوں نے صرف اللہ کے نام پر اپنے گھر بار، جائیدادیں چھوڑیں۔ہزاروں لوگ شہید ہوئے صرف اس لیئے کہ ایک ایسا خطہ زمین حاصل کیا جائے جس کو اسلام کے اصولوں کی تجربہ گاہ بنایا جا سکے۔1947 سے پہلے ہم ایک قوم تھے جس کو ملک کی ضرورت تھی۔مگر افسوس آج ہمارے پاس وطن تو ہے مگر ہمیں ایک قوم کی ضرورت ہے۔آج ہم پاکستانی کہلانے کی بجائے بلوچی، سندھی، پنجابی اور مہاجر کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ عوام اپنے حکمرانوں، سیاستدانوں، جرنیلوں، بیوروکریٹس اور صنعتکاروں سے قائد اعظم کا پاکستان مانگتی ہے۔ جہاں فیصلے عام لوگوں کی بھلائی کے لیئے ہوں۔ جہاں قانون کی پاسداری ہو۔ جہاں امیر اور غریب کے لیئے یکساں قانون ہو۔پاکستان اللہ رب العزت کے فضل و کرم سے 27 رمضان المبارک کو ایک الگ وطن بن کر دنیا کے نقشے پر ظہور پزیر ہوا۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس کی قدر کریں اور شکر ادا کریں۔اور دعا ہے کہ جس پاکستان کا خواب قائداعظم اور حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے دیکھا تھا اس کو شرمندہ تعبیر ہوتا ہوا دیکھ سکیں۔آمین