تحریر : شہزاد سلیم عباسی پاکستان ماہ رمضان کی عظیم ساعتوں میں 14 اگست 1947ء کو معرض وجود میں آیا۔ ظہور پاکستان محض اتفاق نہیں ہے بلکہ خالق کائنات کی عظیم حکمت عملی کا حصہ ہے جس سے رمضان، قرآن اور پاکستان کی نسبت و تعلق کی داغ بیل پڑی۔ تحریک پاکستان ایک نظریاتی اور ملی تحریک تھی جس کا مقصد ہندی، فرنگی تمدنی تسلط سے آزادی حاصل کرنا تھا۔14اگست آزادی و تشکر کا یوم سعید ہے جس کو بھولناحماقت ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اس میں سیاست، معیشت و معاشرت، عدل و احسان ،عفت و طہارت او تقویم کا جامع نظام موجود ہے۔ دو قومی نظریہ درحقیقت اسلام کے عقائد و اعمال کا نام ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح بانی پاکستان اس نظریاتی اساس کے پاسدار تھے۔ وہ قرآن حکیم ہی کو پاکستان کا آئین و قانون تصور کرتے تھے۔ علامہ محمد اقبالاسلامی نظام کے حوالے سے ہی مسلمانان ہند کی تحریک آزادی کے علمبردار تھے۔بانیان پاکستان کی فکر سے دوری آزادی کی برکات سے محرومی کا باعث ہو سکتی ہے۔پاکستان کی 70ویں سالگرہ ہمارے لئے یوم احتساب کا درجہ رکھتی ہے۔ صدر، وزیراعظم اور آرمی چیف کے تہینتی پیغامات کو ذرائع ابلاغ پر نشر کرنا کافی ہے ،نہ ہی بلند وبالا عمارتوں، گھروں اور محلوں کوسجانا یا فوج کی جانب سے پریڈ کردینا یوم آزادی کی حقیقی روح ہے۔
14اگست 1947 تو یوم ایفاء ہے کہ اب پاکستان کے دفاع کے لیے ہر چیز سے ٹکرا جائیں گے۔اسلام اور پاکستان کے نام پر آنچ نہیں آنیں دیں گے۔ مملکت خداد میں محبت ، پیار، امن و سلامتی، رواداری ، بھائی چارہ اور اتفاق و یگانگت کو فروغ دیکراس عظیم قوم کے تمام مسائل پرگہری توجہ دیں گے اور مہنگائی ، بد امنی ، بیماری اور غربت کا خاتمہ کرینگے۔عہد کریں پاکستان کا ہر بچہ سکول جائیگا اور انصاف کا بول بالا ہو گا ۔۔۔لیکن جان لیجئے اگرقائداعظم کے فرامین پر عمل نہیں کیا گیا توایسے سینکڑوں آزادی کے آیام منا کر بھی ہم غلام اور بدنصیب رہیں گے۔ پاکستان دنیائے اسلام میں واحد ملک ہے جو نظریاتی حوالے سے وجود میں آیا، اس کا نام ”پاکستان” خود اس پر دلیل ہے۔ شب قدر قدردانِ حقیقت آبروئے صحافت محافظ نظریہ پاکستان محترم مجید نظامی کے وصال حق کی امین ہے، ان مقبول ساعتوں میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح، مصور پاکستان حکیم الامت علامہ محمد اقبال، حمید نظامی اور مجید نظامی مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔
چینی(شوگر) کا مصنوعی بحران اور عارضی قحط تیار کر کے ایک بار پھر ناجائز منافع خوری کی روایت ڈالی جارہی ہے۔ صنعتکاروں نے شوگر ملوں میں لاکھوں ٹن چینی سٹاک کر لی ہے۔ صنعتکار ،بنکر ، مالکان اور حکومتی عہدیدار سود در سود یعنی سود مرکب کے ذریعے گھر بیٹھے کروڑوں روپے کماتے ہیں ۔پھر نام نہاد یونینز پہلے چینی کی بہتات کرکے ہزاروں لاکھوں ٹن چینی برآمد کرتے ہیں اور پھر حکومت سے سبسڈی لے کر” چوپڑی ہوئی اور وہ بھی دو دو”کا مصداق بنتے ہیں۔نتیجتاََ متعلقہ شوگر مل مالکان کے ساتھ مل کر اربوں روپوں کا خزانوں کو نقصان پہنچا تے ہیں۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ ملک کی شوگر ملوں کے سبھی مالکان ہی حکمران طبقات سے تعلق رکھتے ہیں سندھ ہو یا پنجاب دونوں میں حکمران طبقوں کی مکمل آشیرباد سے شوگر اونے پونے داموں خرید کر سٹاک کی جاتی ہے اور پھرصحیح وقت میںمصنوعی بحران کے ذریعے مہنگائی کا ایٹم بم گرایا جاتا ہے۔ سبسڈی اور پرائز کنٹرول کمیٹیوں کے حیلوں سے کسان اور عوام دونوں کا استحصال کی جاتا ہے۔ضروت اس امر کی ہے کہ فوڈ اسٹف آرڈینینس 1975 اور نیشنل پرائز مانیٹرنگ کمیٹی(NPMC) کے تحت پورے پاکستان میں موجودکنزیومر پرائز انڈیکس(CPI)،ہول سیل پرائز انڈیکس(WPI)،سینسٹیوپرائز انڈیکس(SPI)، اسپیشل پرائز مجسٹریٹس، ڈی سی اوز، اے سیز، ڈی سیز، پرائز کنٹرولرز،کوالٹی اینڈ سپلائی مانیٹرز اورکمپٹیشن کمیشن آف پاکستان (CCP)کے ذریعے پرائز ، کوالٹی اور سپلائی کوکنزیومر فرینڈلی بنایا جائے۔
نواز شریف نے اپنے چاردنوں کے استقبالیہ جلسوں میں پنجاب کے مختلف مقامات پر خطابات کرتے ہوئے سیاسی طنز کے نشتر برسائے اور عوام کا بھرپور اعتماد سمیٹے ہوئے عوا م سے کچھ سوالات بھی کیے۔ انہوں نے کہاآپ مجھے بتائیں کہ” میں نے کونسی حرام کمائی کی ہے؟ میں نے کونسی غدار ی کی ہے ؟ میں نے ملکی خزانے میں کونسی خوربرد کی ہے ؟ میں پوچھتا ہوں کہ 20کروڑ عوام کی عزت ہے یا نہیں ہے ؟ یہاںسازشی جب چاہتے ہیں وزیراعظم کو ذلیل، رسوا کرکے پھانسی، ہتھ کڑیوں ، جیلوں اور نااہلیوں کے ذریعے سے چلتا کردیتے ہیں ۔ یہاں 15وزرائے اعظم آئے اور خوار ہو کر چلے گئے ۔ یہاں ڈکٹیٹر شپ کی شہنشائی رہی ہے۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے تمام تر خطابات میں واضح کیا کہ وہ اپنی سیاسی سرگرمیوں بڑے زور وشور سے جاری رکھے گے ۔ نواز شریف کے خطابات سے لگتا ہے کہ وہ ووٹ کی پرچی کو پھاڑکر پھینکنے سے کسی غیر مرئی طاقت کی طرف اشارہ کررہے ہیں ، لیکن ٹکرائو سے بچنے کے لیے برائے راست ججز ، ملٹری یا کسی اور کا نام نہیں لے رہے۔ ذرائع کے مطابق شہباز ونثاراور پارٹی کے باقی چوٹی کے سیاستدان جی ٹی روڈ کے ذریعے احتجاجی ریلی کے خواہاں نہیں تھے لیکن نواز شریف نے جی ٹی روڈ کو ہی اپنا سیاسی اکھاڑا بنانے کا فیصلہ کیا۔ بہرحال ،اب میاں نواز شریف کو بڑی احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ کیونکہ اشاروں ، کنایوںمیںعوام کو جوش دلانے سے معاملات خرابی کی طرف جا سکتے ہیں اور نیب ریفرنسز کا عمل تیز ہو سکتا ہے۔اس لیے جتنا ممکن ہو سکے شہباز شریف اور نثار پر پارٹی کو چھوڑ دینا چاہیے ۔یا درہے کسی بھی معمولی خطاء کی صورت میںخدا نخواستہ کوئی بھی سازش سر اٹھا سکتی ہے۔