تحریر : ملک محمد سلمان یوم آزادی پر ہم جھنڈے لہرا کر 1947 ء کی آزادی کی یاد تازہ تو کر لیتے ہیں مگر اس ملک کے حالات درست نہیں کر سکے۔ کیا قوم آزادی کا اصل مقصد حاصل کرپائی؟پاکستان عظیم ترین مقاصد کیلئے حاصل کیا گیا تھا،جوبانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے بعداکتوبر 1947ء میں پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے کراچی میں قوم سے خطاب کرتے ہوئے ان الفاظ میں واضح کئے تھے کہ :”پاکستان کا قیام جس کیلئے ہم گذشتہ دس سال سے مسلسل کوشش کر رہے تھے اب خدا کے فضل سے ایک حقیقت بن کر سامنے آچکا ہے لیکن ہمارے لئے اس آزاد مملکت کا قیام ہی مقصود نہ تھا بلکہ یہ ایک عظیم مقصد کے حصول کا ذریعہ تھا۔ ہمارا مقصد یہ تھا کہ ہمیں ایسی مملکت مل جائے جس میں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہ سکیں اور جس میں ہم اپنی اسلامی روش اور ثقافت کے مطابق نشو و نما پا سکیں اور اسلام کے عدل عمرانی کے اصول پر آزادانہ طور پر عمل کر سکیں”۔
بدقسمتی سے قائداعظم قیام پاکستان کے ایک سال بعد ہی رحلت فرما گئے۔ اسکے بعد جوبھی حکمران آئے انہوں نے قیام پاکستان کے مقاصد اور قائد کے رہنما اصولوں کو فراموش کر دیا جس کے باعث وطن عزیز طرح طرح کے بحرانوں، مسائل، مشکلات اور مصائب کا شکار ہے۔ آج اندرونی و بیرونی محاذ پر ہمیں بدترین ناکامیوں کا سامنا ہے۔
حکمرانوں نے پاکستان کو اپنے باپ کہ جاگیر سمجھ کر اس بری طرح لوٹا کہ آج پوری قوم کاسہ گدائی لئے ورلڈ بینک، آئی ایم ایف جیسے ظالم اداروں کے سامنے کھڑی ہے جو اپنی مرضی سے ہمارابجٹ بنواتے ہیں ہم پر ٹیکس لگواتے ہیں۔بخدا یہ صریحاً توہین ہے اْن جذبوں کی جو قیام پاکستان کیلئے دی جانے والی قربانیوں کے پیچھے کار فرما تھے، یہ توہین ہے اْس خون کی جو پاکستان کیلئے شہدا ء کے بدن سے بہا، یہ توہین ہے اُس نظریے کی جس کی بنیاد پر تحریک پاکستان چلائی گئی۔
ہمیں آزادی انگریزوں نے نہ تو طشتری میں سجا کر بطو ر تحفہ دی تھی اور نہ ہی بخشش کے طور پر عنایت کی تھی بلکہ ہماری آزادی کی تاریخ بڑی طویل،صبر آزما اور عظیم جدوجہد سے عبارت ہے۔آزادی حاصل کرنے کے لیے ویسے تو قربانی پیش کرنا ہی پڑتی ہے مگر حصولِ پاکستان کے لیے مسلمانانِ برصغیر نے جس قسم کی قربانیاں پیش کیں ان کی مثال اقوامِ عالم میں نہیں ملے گی۔اِس آزادی کے حصول میں دی گئی لاکھوں قربانیوں کو کبھی بھی بھلانہیں سکتے، ہجرت کی داستانیں اتنی دلخراش اور طویل ہیں کہ انہیں قرطاس و قلم کی زینت بنانا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔
مسلمانان برصغیر نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے قیام پاکستان کی تاریخ ساز جدوجہد کی تھی، اس خواب کو تعبیر بخشنے کیلئے ہمارے قائدین نے قربانیاں دیں، تحریکیں چلائیں، گھر بار زمین و جائیدادیں چھوڑیں ، لاکھوں مسلمانوں نے آگ و خون کے دریا عبور کئے، ماؤں نے معصوم بچوں کو نیزوں پر اچھلتے دیکھا، عورتوں نے اپنے سہاگ اجڑتے دیکھے اور گھر بار، عزیز و اقارب اور اپنے پیاروں کے نام و نشان چھوڑ کر پاکستان کیلئے عازم سفر ہوئے اور ہجرت کی۔ آگ و خون کے دریاؤں سے گزرنے کا احساس اور تجربہ برصغیر کے مسلمانوں سے زیادہ کسی اور قوم کو نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ غلامی کا طوق گلے سے اتارنے کیلئے ہمیشہ سینہ سپر رہے، پلاسی کے میدان سے لے کر سرنگا پٹم کی سرزمین تک، 1857ء کی جنگ آزادی سے لے کر تحریک خلافت، تحریک ہجرت اور تحریک عدم تعاون تک، جلیانوالہ باغ کے المیہ سے لے کر واقعہ کانپور مچھلی بازار، سانحہ مسجد شہید گنج اور حادثہ قصہ خوانی بازار تک، ایسے تمام مواقع پر مسلمانان ِ ہند جرات و بہادری کے ساتھ بڑھ چڑھ کر مردانگی کا مظاہرہ کرتے رہے اور اپنے خون سے آزادی کے چراغ روشن کرتے دکھائی دئیے۔
آزادی کو حاصل کرنے کے لیے انھوں نے کیا کچھ قربان نہیں کیا عصمتیں لٹ گئیں سہاگ اْجڑ گئے،مال و متاع چھن گیا، گھر ویران ہو گئے بستیاں تباہ و برباد کر دی گئیں وحشت و بر بریت کا خونی کھیل کھیلا گیامگر آفرین ہے آزادی کے ان متوالوں پر کہ ان کے پایہ استقلال میں ذرہ بھی لرزش نہ آئی بلاشبہ آگ و خون کے اس دریا کو انھوں نے ڈوب کر پار کیا ہے۔
بالآخر مسلمانوںکی برسوں کی محنت رنگ لائی اور 14 اگست1947 ء کو پاکستان کی صورت میں انہیں ایک آزاد ملک مل گیاالحمداللہ آج ہم جس آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں یہ سب ہمارے اسلاف کی لازوال قربانیوں کا ثمر ہے۔
آج ہم اس پاک سر زمین کے مرغزاروں، ریگزاروں، اور آباد قصبوں اور شہروں میں اپنی آزاد فضاؤں کے ساتھ محو رقص ہیں، یہاں کی سر سبز و شاداب وادیا ں ہمیں زندگی کے جبر سے بے خبر کئے ہوئے ہیں، جبکہ اس کے دامن میں جاری دریا اور اس کی تہوں میں چھپے خزانے ہماری توانائیوں کے جواب میں اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کے کیلئے تیار ہیں، یہاں کے پہاڑوں کی بلندیاں اور سمندر کی وسعتیں ہماری ہمتوں کی آزمائش کیلئے محو انتظار ہیں، قدرت کی اَن گنت عطیات اس خطہ ارضی کے دامن میں پوشیدہ ہیں۔لیکن افسوس کہ ہماری تمام توانائیاں سہل انگاری کی نظر ہوگئیں، ہماری خوابیدہ صلاحیتیں کسی معجزہ کے ظہور کا انتظار کررہی ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ ہم سہل انگاری کے فریب اور معجزوں کے انتظار کے سحر سے باہر نکلیں ،پاکستان ہمارے پاس امانت ہے، یہ امانت ہے اْن شہداء کی جنہوں نے اس کی بنیادیں اپنے گرم لہو سے اٹھائیں، یہ امانت ہے ہماری آئندہ نسلوں کی جنہیں کل اس کا پاسبان بننا ہے۔
پاکستان ایک حقیقت ہے یہ عطیہ خداوندی ہے اس نعمت سے فیضیابی کیلئے ہمیں اپنے آپ کو پورے خلوص اور عزم صمیم کے ساتھ تیار کرنا ہوگا۔آج تکمیل پاکستان کیلئے ہمیں وہی جذبے، وہی ولولے اور وہی قربانیاں دینا ہونگی جس کا نظارہ تشکیل پاکستان کے وقت ہمارے آباؤ اجداد نے پیش کیا تھا، تکمیل پاکستان کی جد وجہد کا عملی حصہ بنیئے کیونکہ جسم و جاں پر صبح آزادی کا قرض ابھی باقی ہے۔