آزادی کے 70 سال اور خون کے آنسو

Freedom Pakistan

Freedom Pakistan

تحریر : روہیل اکبر
خوش قسمتی سے آج ہم اپنی 70ویں جشن آزادی کی تقریبات منا رہے ہیں مگر بدقسمتی سے ہم پرآج تک قابض حکمرانوں نے ہمیں ایک قوم نہیں بننے دیا ہماری خوش قسمتی کو ہمیشہ انہوں نے بدقسمتی سے تبدیل کیا اپنے آپ کو محفوظ قلعوں میں بند کرکے عوام کو دہشت گردی کا ایندھن بنا دیاہمارے بہنے والے ناحق خون کو بھی اپنی سیاست کی بھینٹ چڑھادیا جھوٹ اور الزام تراشیوں کی سیاست نے ہماری نوجوان نسل کو بھی اسی ڈگر پر گامزن کردیا جس پر ان کے نام نہاد رہنماء چل رہے ہیں صبح سے رات تک جھوٹ بولنے کا ایسا مقابلہ ہوتا ہے کہ جس میں کسی کی ہار نہیں ہوتی ایسے افراد کو عہدوں سے نوازا جاتا ہے جو مخالفین کے خلاف زیادہ گندی زبان استعمال کرتا ہو ہمارے لٹیرے سیاستدانوں نے سوائے لوٹ مار کے اور کوئی کام نہیں کیا اسمبلیوں میں بیٹھ کر قانون سازی کی بجائے قانون کی دھجیاں اڑانے کا کام تسلی بخش انداز میں کیا ایک الیکشن جیتنے کے بعد اگلے الیکشن کو کیسے جیتنا اسی پر پلاننگ ہوتی رہتی ہے اراکین اسمبلی کا دماغ کیسے درست رکھنا اور ترقیاتی کاموں کے نام پر فنڈز کی بندر بانٹ کب اور کس وقت کرنا ہوتی ہے اسی چکر میں سیاست ہوتی رہتی ہے پولیس کانسٹیبل ،نکا تھانیدار اور ایس ایچ او اپنے تھانے کی حدود میں تعینات کرواکران سے کیا کیا کام لینے ہیں ہمارے سٹہ باز سیاستدان اسی پر اپنا زور لگاتے رہتے ہیں۔

اضلاع میں انتظامی اور پولیس کے سربراہان سے لیکر صوبوں اور مرکز میں مختلف محکموں کے سربراہان ،آئی جی ،چیف سیکریٹری اور پرنسپل سیکریٹری کسے لگا کراپنے مقاصد کی تکمیل کروانا ہے اسی پر سیاست کی انتہا ہوجاتی ہے ہمیں کوئی غرض نہیں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے اپنا موازنہ کرنے کی کیونکہ ہم نے اپنی لوٹی ہوئی دولت انہی ممالک میں ہی جمع کرکے کاروبار ،فلیٹس اور سرے محل جیسی جائیدادیں بنانی ہے ہمیں کیا ضرورت ہے عوام کو شعور دینے کی، انہیں زندگی کی خوشیوں سے مالامال کرنے کی،انہیں گدھے کی کام طرح کام کرنے کے بعد خوشحال زندگی گذارنے کی ،سائیکل سے موٹر سائیکل پر آنے والی خواش کی،موٹر سائیکل سے گاڑی تک اور کرایہ کے گھر سے اپنے ایک چھوٹے سے آشیانہ تک کی تمام خواہشیں صرف خواہشیں ہی رہتی ہیں کیونکہ ہمارے سیاستدانوں کی بنیادی اور سب سے اہم خواہش بھی یہی ہوتی ہے کہ عوام کو روٹی ،کپڑا اور مکان کا لالچ دیکر لوٹ لیا جائے اگر یہ تین بنیادی چیزیں ایک عام آدمی کے پاس پہنچ جائیں تو پھر ان لٹیروں کو ووٹ کون دیگا جو عوام کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لینا چاہتے ہیں۔

ہمارے پیارے پاکستان میں اتنے وسائل ہے کہ پوری قوم نہ صرف خوشحالی کی زندگی جی سکتی ہے بلکہ غریب ممالک کے افراد یہاں آکر باعزت روزگار حاصل کرسکتے ہیں مگر 70سال گذار کر بھی ہم اس مقام پر ہیں کہ آج ہمارے پاس بجلی نہیں ہے ،پینے کا صاف پانی نہیں ہے ،علاج کی سہولیات نہیں ہیں ،تعلیم کے لیے اچھے سرکاری ادارے نہیں ہے ،رہائش کے لیے کوئی مکان نہیں ہے ،کھانے کے لیے میعاری خوراک نہیں ہے ،چوروں اور ڈاکوؤں کے لیے کوئی قانون نہیں ہے ،بوڑھے اور بے سہارا افراد کے لیے کوئی اولڈ ہوم نہیں ہے ،اعلی عہدوں کی تعیناتی سے لیکر معمولی ملازمت کے لیے کوئی سسٹم نہیں ہے ،رشوت خوروں کو پکڑنے کے لیے رشوت خوروں کی موجودگی سے کوئی احتساب نہیں ہے ، سرکاری ہسپتالوں میں بیماروں کے لیے موت ہے ادویات نہیں ہیں ،سرکاری اداروں میں ہڑتال ہے کام نہیں ہے،پڑھے لکھے نوجوانوں کے لیے خودکشیاں ہیں ملازمت نہیں ہے ،معزز اور ایماندار افراد کے لیے دھکے ہیں انکی خدمات کا اعتراف نہیں ہے ،الزام تراشی اور ریاکاری کی سیاست ہے عوام کی خدمت نہیں ہے ،پارٹی فنڈ کے نام پر ڈاکوؤں کو ٹکٹ جاری کرکے اسمبلیوں میں پہنچا دیا جاتا ہے محنتی اور محب وطن ورکر کے لیے کوئی پارٹی ٹکٹ نہیں ہے اورچوری ڈکیتی اور لوٹ مار ثابت ہونے پر بھی حکمرانوں کو سمجھ نہیں آتی کہ انہیں نکالا کیوں گیا ہے ایسے چشم پوش سیاستدان جو سمجھتے ہیں کہ ملک میں ترقی کا پہیہ انہی کے باعث چل رہا ہے۔

اصل میں ملک میں رکی ہوئی ترقی انہی سیاستدانوں کی وجہ سے ہے جنہوں نے شروع سے لیکر اب تک جھوٹ کا سہارا ہی لیا ایک بار نہیں بلکہ بار بار جھوٹ بول کر قوم کو بھی جھوٹ سننے پر مجبور کردیاانہی جھوٹوں کی وجہ سے آج ہر طرف جھوٹ کا راج ہے عدالتوں میں جھوٹے گواہ پیش کردیے جاتے ہیں حکمران دن رات جھوٹ بول رہے ہیں کاروباری طبقہ جھوٹ پر جھوٹ بول رہا ہے جبکہ الیکشن سے قبل ہر پارٹی جھوٹ پر مبنی اپنا منشور پرنٹ کرواکرعوام تک پہنچا رہے ہوتے ہیں اصل میں جو کچھ لکھا ہوتا ہے وہ اسکے الٹ کام کرتے ہیں ابھی کل ہی کی بات ہے کہ نااہل وزیراعظم میاں نواز شریف اپنے ہی ملک میں جسکے وہ وزیراعظم رہے ایک بار نہیں بلکہ تین بار عوام نے انہیں وزیراعظم بنایا اپنے ہی صوبے میں جہاں وہ وزیرخزانہ اور پھر وزیراعلی رہے جہاں پر انکے چھوٹے بھائی وزیراعلی ہیں اور خود کو خادم اعلی کہلاتے ہیں اور اسی شہر میں جہاں کی گلیاں انکی دیکھی ہوئی ہیں اور جہاں کی عوام نے انہیں عزت دی۔

اسی شہر میں حضرت داتا گنج بخش کے سامنے بلٹ پروف شیشے کے پیچھے چھپ کر جھوٹ بولا ایک بار نہیں بلکہ بار بار جھوٹ بولا گیا یہ وہ پرامن ملک تھا جہاں دہشت گردی کا نام دور دور تک سنائی نہیں دیتا تھا جہاں بھائی چارے اور امن کی فضا تھی سب لوگ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے مگر گذرے ہوئے 70سالوں کے آدھے سے بھی زیادہ حصے پر آپ نے حکمرانی کی جسکی وجہ سے ہم آگے جانے کی بجائے دن بدن خوف،دہشت گردی،لاقانونیت ،بے روزگاری ، چور بازاری ،لوٹ مار ،خون ریزی،قتل غارت،احساس محرومی اور خود کشیوں کی دلدل میں گرتے گئے خدارا ہم پر رحم فرمائیں ہم 70سال کے ہوچکے ہیں ہمارا بچپن آپ نے کھا لیا ہماری جوانی آپ نے نچوڑ لی اب ہم بڑھاپے کی دہلیز پر ہیں اور لرزا طاری ہے ہمیں مزید رسوا نہ کیجیے ہماری کمر خم کھا چکی ہے ہمارے سر پر جو آپ نے اپنی کرپشن ،لوٹ مار ،چور بازاری اور جہالت کا بوجھ ڈال رکھا ہے اسے اب اتار لیجیے کیونکہ میں پاکستان ہوں اور میں نے اس کے لیے قربانی دی میرے جیسے 22لاکھ افراد اسی پاکستان پر کٹ مرے ،میری بہنوں کی عزتیں پامال کر دی گئی۔

میری ماؤں کے سامنے انکے سہاگ کے سر تن سے جدا کردیے گئے میرے معصوم بچوں کو نیزے کی انیوں پر اچھالا گیامیرے والدین کو تڑپا تڑپا کر پاکستان بنانے کی سزا دی گئی میرے اندر زخموں سے رستے ہوئے نہ رکنے والے خون کا ایک سلسلہ جاری ہے اور آج میری آنکھوں سے آنسو بھی پانی کی بجائے خون بن کے نکل رہے ہیں خداراں مجھے معاف کردیں میں نے بہت سزا بھگت لی اب میر ے بچوں کو ایک پرسکون اور خوشحال پاکستان دیدیں میں اپنی زندگی کے آخری ایام ہی سکون سے گذار سکوں میرے سر سے احساس ندامت کا بوجھ اتار دیجیے ورنہ میری کمر ٹوٹ جائے گی یہ ایک محب وطن اور قربانیاں دینے والے کو ہی تکلیف نہیں یہ پاکستان کی کمر ہے جو ٹوٹ گئی تو پھر آپ بھی ٹوٹ جائیں گے خدارا آپ نے جو لوٹ لیا اسی پر اکتفا کرلیں ہماری جان چھوڑ دیں اور ہمیں معاف کردیں ہمارے خون کے آنسو خوشی کے آنسوؤں میں بدل جائیں گے۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر
03004821200