تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی میرے سامنے بوڑھا شادی شدہ جوڑا بیٹھا تھا ‘دونوں کے چہروں پر محبت آسودگی اور ملکوتی نور پھیلا ہوا تھا ‘دونوں کی عمر 80 سال کے اوپر نیچے تھی ،پچاس سال سے زائد شادی شدہ زندگی گزارنے کے باوجود بھی دونوں کی محبت میں بال برابر کمی نہیں ہوئی تھی بلکہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ دونوں کی محبت میں اضافہ ہی ہوتا گیا تھا ‘دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر جیتے تھے ‘دونوں جب ایک دوسرے کو دیکھتے تو آنکھوں میں محبت کی قندیلیں جھلملانے لگیں ۔شادی سے پہلے تو ہر جوڑے کو ہی محبت و عشق کا دورہ پڑتا ہے جو شادی کے بعد پانی کے بلبلے کی طرح بیٹھ جاتا ہے ‘میری زندگی میں ہزاروں ایسے کیس آچکے ہیں جنہوں نے ماں باپ سارا زمانہ چھوڑ کر شادی کی لیکن چند مہینوں بعد ہی طلاق مانگتے نظر آئے اور پھر طلاق کے بعد کبھی مڑ کر واپس نہ دیکھا لیکن آب زم زم سے دھلے یہ میاں بیوی کرامت کے طور پر میرے سامنے بیٹھے تھے ‘دونوں کی محبت کا پودا کئی سال پہلے کراچی میں پروان چڑھا ‘میاں کراچی کے بہت بڑے صنعت کار کے بیٹے تھے جوانی میں انہیں عیسائی غریب لڑکی سے عشق ہو گیا یہ خبر خاندان کیلئے بھونچال سے کم نہ تھی جب میاں نے سرعام اعلان کیا کہ میں اسی لڑکی سے شادی کروں گا تو سارا خاندان اکٹھا ہوگیا اور فیصلہ یہ ہوا کہ اگر تم نے عیسائی لڑکی سے شادی تو تمہیں کروڑوں کی جائیداد سے عاق کر دیا جائے گا۔
میاں نے خاندان کے فیصلے کو قبول کیا ‘لڑکی کو مسلمان کیا شادی کی اور ہمیشہ کیلئے کراچی کو چھوڑ کر لاہور آگئے اور پھر دوبارہ کبھی مڑ کر واپس نہ دیکھا ‘گھر سے بھاگ کر شادی تو روزانہ بے شمار لوگ کرتے ہیں ‘اخبارات اور ٹی وی چینلز ایسی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں لیکن شادی کے بعد چند دنوں میں عشق کا بخار اتر جاتا ہے لیکن یہ کیسا بخار تھا جو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ زیادہ ہوتا گیا۔کامیاب ازدواجی زندگی گزارنے کے بعد بڑھاپا شروع ہوا ،بیماریاں شروع ہوئیں تو میاں صاحب اپنی محبوب بیوی کے علاج معالجے کیلئے دن رات کوشاں رہتے ہیں ‘بیماری سیریس نہیں تھی ‘صرف بڑھاپا اور کمزوری تھی ‘یہ ساری باتیں ساتھ آئی نوجوان پوتی نے بتائیں ‘میں نے پڑھنے کو تسبیح بتائی ‘دعا دی ‘جب میاں بیوی جانے لگے تو میں نے ان کی آنکھوں میں پیار سے جھانکا اور پوچھا اتنی محبت کہ آپ نے کروڑوں کی جائیداد اور ماں باپ کو ایک لمحے میں چھوڑ دیا تو انہوں نے انتہائی پیار سے بیوی کی طرف دیکھا ‘بے پناہ محبت سفید موتیوں کی شکل میں آنکھوں سے ٹپک کر سفید داڑھی پر آکر ٹمٹمانے لگی’چہرے پر آہنی عزم آیااور بولے میں پوری دنیا کی سلطنت جوتے کی نوک پر ٹھوکر مار کر اڑا دیتا اور اگر میرے مقدر میں جنت ہوئی اور میری بیوی ساتھ نہ ہوئی تو میں جنت کو بھی ٹھکرا دونگا ‘انکا خالص پیار دیکھ کر میری آنکھوں میں بھی نمی تیرنے لگی ‘ دونوں میاں بیوی تو چلے گئے لیکن میں سوچنے لگا خالق کائنات جب کسی کے دن میں محبت کا بیج بوتا ہے تو پھر اس کے اندر یہی یہ حوصلہ اورعزم آتا ہے۔
جب انسان دنیا جہاں کی دولت اور حکمرانی کو جوتے کی نوک پر اڑا دیتا ہے یہاں تاریخ انسان کا ایک اور بڑا کردار یاد آگیا جس نے اپنے محبوب کو پانے کیلئے دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کو ٹھکرا دیا تھا ‘اگر ہم انسانی فطرت کا مطالعہ کریں تو اس کی ہوس کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہے تاریخ کے ہر دور میں ایسے حکمران پیدا ہوتے رہے جنہوں نے فاتح عالم کا خواب دیکھا پھر اس کو پورا کرنے کیلئے کروڑوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ‘اشوکا نے ہندوستان میں قتل و غارت کے جو باب رقم کئے تاریخ انہیں کبھی نہیں بھلائے گی،یونانی سکندر اعظم کی برق رفتاری اور جنگی صلاحیتوں کا لوہا کون نہیں مانتا۔خانہ بندوش چنگیز خان کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے کرہ ارض کتنے سال لرزتی رہی ‘ہلاکو خاں نے چھلاوے کی طرح کتنے شہروں کو صفحہ ہستی سے مٹادیا اور پھر تاریخ کا انوکھا کردار امیر تیمور جسے دنیا ارتھ شیکر کے نام سے جانتی ہے جس نے اپنی اس خواہش کی تکمیل کیلئے شہروں کے شہر اجاڑ کر راکھ کے ڈھیر بنا دیئے ‘یہ سارے فاتح عالم بننا چاہتے تھے اور پھر تاریخ کے کینوس پر ایک ایسا کردار ابھرتا ہے جو محبت کے باعث قیامت تک کیلئے امر ہوگیا،ایڈورڈ ہشتم 20جنوری 1932کو سلطنت برطانیہ کا حکمران بنا ایسی سلطنت جو آسٹریلیا سے لے کر کینیڈا تک اور افریقہ کے صحرائوں تک پھیلی ہوتی تھی ‘ایسی سلطنت جس میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔
شاہی مسند پر بیٹھنے سے دو سال پہلے ایڈورڈ کسی حسینہ کے تیرنظر کا گھائل ہو چکا تھا ‘تخت نشینی سے دو سال پہلے اس کی ملاقات ایک امریکن شادی شدہ خاتون سے ہوتی ہے جو اپنے خاوند کے ساتھ اس کی شکارگاہ پر آتی ہے ‘خاتون ویلیس کی بے ساختہ مسکراہٹ اور انداز گفتگو ‘الفاظ کا چنائو ‘سریلی مترنم آواز ‘مست چال ‘سا حرانہ انداز ‘جسم کی قیامت خیزی ‘آنکھوں کی چمک ‘حسین زلفیں ‘خاتون کے انگ انگ سے نشہ پھوٹتامحسوس ہوتاتھا’ اس کی شخصیت کا وقار ‘تمکنت اور علم کا نور ایڈورڈ کودیوانہ بناگیا پھر عشق کا جذبہ ہڈیوں تک اتر گیا ‘اب محبوب کو پانے کی دیوانگی لیکن یہاں پرابلم یہ تھی کہ بادشاہ کی شادی کیلئے والدین کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کی بھی منظوری ضروری تھی اور ویلیس کو اپنے شوہر سے طلاق بھی لینی تھی اسی دوران ایڈورڈ کا باپ چل بسا اور ایڈورڈ خود بادشاہ بن گیا ‘کہتے ہیں عشق کی خوشبو چھپائے نہیں چھپتی اب بات نجی محفلوں سے عوام میں آنا شروع ہوگئی تھی پھر وہ دن بھی آیا جب دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں بھونچال آگیا جب 15اکتوبر 1932کو ویلیس نے علالت میں اپنے خاوند سے طلاق کی درخواست دائر کی ‘پوری دنیا کے اخبارات کی خبر یہی تھی پھر ان دونوں کی محبت کی داستان پوری دنیا میں آگ کی طرح پھیل گئی ‘اب ہر زبان پر ایک ہی قصہ تھا ان کی محبت کا ‘اس وقت برطانیہ کی پارلیمنٹ کا وزیراعظم ہالڈون تھا اس نے پرجوش تقریر میں کہا بادشاہ کے اس عشق سے عظیم سلطنت کے شاہی گھرانے کا وقار خطرے میں پڑ گیا ‘کابینہ کا اجلاس بلا کر بادشاہ کو اس شادی سے روکنے کی تدبیر یں ہونے لگیں ادھر عدالت نے ویلیس کو طلاق دلوا دی اور اجازت دی کہ وہ چھ ماہ بعد کسی سے بھی شادی کر سکتی ہے ‘وزیراعظم ‘کابینہ ‘اخبارات نے بادشاہ کو شادی سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
ایڈورڈ نے بہن بھائیوں اور ماں سے شادی کی اجازت بار بار طلب کی لیکن پورے خاندان نے شادی کی حمایت سے نکار کر دیا جب ایڈورڈ کسی بھی صورت میں پیچھے ہٹنے کو تیار نہ ہوا تو ہالڈون نے آخری تیر چلا دیا کہ اگر بادشاہ اپنی محبت کی شادی کرنا چاہتا ہے تو وہ تخت و تاج کو چھوڑ دے ‘ایسا تخت جس کی حدود میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا ‘ایڈورڈ بند گلی میں پھنس چکا تھا محبوبہ یا سلطنت اور پھر محبت بھرے دل نے محبوب کو چن لیا ۔تخت سے دستبرداری سے پہلے قوم سے خطاب کیا ایک محبوب نے اپنی محبوبہ کیلئے جو الفاظ استعمال کئے وہ تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف میں لکھے جائیں گے۔ایڈورڈ نے کہا آخر مجھے آزادی مل گئی جس عورت کی خاطر میں نے شاہی مستند سلطنت کو ٹھوکر مار ی اس کے حسن قرب اور رومانی سہارے کے بغیرمیں بادشاہی کے فرائض خوش اسلوبی سے سرانجام دے ہی نہیں سکتا تھا میں اس عورت کے بغیر زندگی کاتصوربھی نہیں کر سکتا اس کی شکل میں مجھے زندگی اور اس کے بغیر موت لگتی ہے پھر تخت سے دستبردار ہو گیا۔برطانیہ کے تخت پر سینکڑوں بادشاہ آئے اور چلے گئے ماضی کے غبار میں آج ان کے نام تک لوگوں کو یاد نہیں لیکن انسانی تاریخ کا واحد طاقتور بادشاہ جس نے محبت کیلئے طاقتور سلطنت کو ہوا میں اڑا دیا ،دنیا میں تخت کو پانے کیلئے ہر دور میں انسان کوشاں رہے ہیں اور قیامت تک یہ سلسلہ ایسی طرح جاری رہے گا لیکن 12دسمبر1936کو بحری جہاز پر اپنی محبوبہ کے ہمراہ جانے والا ایڈورڈ ہشتم واحد حکمران ہے جو آسمان محبت پر روز قیامت تک کیلئے روشن ستارہ بن کر چمک گیا۔