تحریر: صادق رضا مصباحی لکھنا ایک فن ہے ،ایک عظیم فن، مقدس فن ،حرمت والا فن ،ایسا فن کہ جس کے متعلق خود قرآنِ کریم قسم کھاتا ہے :ن والقلم ومایسطرن ۔آیت کی گہرائی میں اتر کر معلوم کریں تو پتہ چلتا ہے کہ قلم کی حرمت ہر لکھنے والے کامقدر نہیں ۔اس کے لیے نیک جذبہ چاہیے اورنیت صاف ۔اگرہم اپنے قلم اوراپنی تحریر کے تئیں مخلص نہیںتوپھرالفاظ محض الفاظ ہی رہ جاتے ہیں،ان میں معانی پیدانہیں ہوتے ۔الفاظ میں معانی اس وقت پیداہوتے ہیں جب لکھنے کاجذبہ مکمل طورپرمثبت ہواوراس میں سلبی کیفیات کاشائبہ تک نہ ہو۔یہا ںایک بہت بڑے سوال کاجواب بھی مل گیاکہ آج پہلے کی بنسبت بہت بڑی تعداد میں کتابیں شائع ہورہی ہیں۔
تقریروں اورخطابات کاایک لامتناہی سلسلہ ہے ، مذہبی چینل شب وروزمصروف ہیں ،اصلاحی اجلاس پہلے کی بنسبت بہت زیادہ ہونے لگےہیں ،ہرسال لاکھوں طلبہ مدارس سے فارغ ہورہے ہیں اوردعوتی وتبلیغی سلسلوں کاتاحدنگاہ پھیلاہواعظیم الشان کارواںہےمگرکیااس اعتبارسے اس کانتیجہ بھی نکل رہاہے ؟توپھرنتائج نہ نکلنے کی وجہ کیاہے ؟اسی نیت کاعدم اخلاص ہے جونتائج اورعدم نتائج کےد رمیان دیوار بن کرکھڑا ہے اور منزلوں تک رسائی میں مزاحم بن رہا ہے۔
مصنفین اورمحررین کی اتنی بڑی اکثریت کے باوجود تبدیلی اس لیے نہیں آرہی ہے کہ لکھنے والوں کے مقاصدمیں کہیں نہ کہیں منفی جذبہ ہے اور جب نیت منفی ہو تو پھر اسے راستے نہیں مل پاتے اورمنزلیں اس کی پہنچ سے بہت دورچلی جاتی ہیں ۔بظاہرہمیں لگتاہے کہ ہم منزل سے جالگے مگر در حقیقت وہ منزل نہیں سراب ہوتی ہے اوریہ سراب خوش فہمی کا دوسرا نام ہے اس لیے ہمارا یہ کہنابالکل بجاہے کہ ہمارے مصنفین اورمحررین کی عظیم اکثریت خوش فہمیوں میں جی رہی ہےاوراپنی انہی ’’فتوحات‘‘ پرنازاں وفرحاں۔کہنے کوتوآج مصنفین بہت ہیں اور قطار اندر قطارلکھنے والے کھڑے ہیں مگربس وہ لکھتے ہی ہیں، حقیقتاً ’لکھنا‘‘ کسے کہتے ہوں وہ اس سے نابلدہیں(الاماشاء اللہ)،ان کے الفاظ ،معانی سے یکسرخالی ہیںاورجہاں معانی نہ ہوں،تاثیرنہ ہوتونتیجے کی امید دیوانے کی خواب کی طرح ہے۔
حدیث نبوی انماالاعمال بالنیات (ترجمہ:عمل کا دارو مدار نیتوں ہی پرہے)کیاصرف دینی احکام ومسائل کےلیے ارشادفرمائی گئی ؟نہیں ،ہرگزنہیں۔یہ حدیث نبوی ایک فطری اصول ہے اورفطرت دین ودنیا کاامتیازروانہیں رکھتی ،یہ یکساں طورپرسب پرجاری ہوتی ہے۔اس لیے اسے دینی واسلامی معاملات کے علاوہ دنیاکے ہرشعبے کے لیے ایک رہ نماسمجھیے اوراسے فطری اصول کے طورپربرتیے ۔ظاہرہے فطرت سے آج تک کوئی بغاوت نہیں کرسکا۔اگرکسی نے کبھی بغاوت کرنے کی جسارت بھی کی تواس کاانجام نہایت بھیانک ہوااوردوسروں کے لے قابل عبرت ۔ آنکھوں میں اگربصیرت کانورہواوردماغ مشاہدات اورمطالعات سے معمور تویہ قابل عبرت مثالیں آ پ کوہرجگہ سانسیں لیتی دکھائی دیں گی ۔یہاں ایک سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی حقیقت کے باوجود انسان فطرت سے بغاوت پرآمادہ کیوں ہوتاہے؟
راقم السطوران صفحات میں بارہاعر ض کرچکا کہ انسان فطری طور پر جلدبازواقع ہواہے۔وہ جلدازجلدبلندی پرپہنچ جاناچاہتاہے اوروہ اس کے لیے ہرمثبت ومنفی ہتھکنڈہ اپناتاہے مگرایساکرتے ہوئے وہ یہ بھول جاتا ہے کہ وہ فطرت سے بغاوت کے کتنے بھیانک جرم کاارتکاب کررہاہے۔اسے احساس ہی نہیں ہورہاہے کہ یہ جرم ایک دن اسے بہت نیچے لے جاکرپھینک دے گا۔ظاہری رکھ رکھائو،تصنع ،بنائوسنگار، تکلفات سے بھرپورزندگیوںکودیکھ کرہماری آنکھیں دھوکہ کھاجاتی ہیںمگرواقعہ یہ ہوتاہے کہ ہمارے اندرون میں اتھل پتھل مچی ہوتی ہے اورہمارے اندرکاپوراجغرافیہ ٹوٹ پھوٹ کاشکارہوچکاہوتاہے ۔اس لیے میرے دوست ! نیتوں کاقبلہ درست ہونا ضروری ہے جب تک ’’قبلہ‘‘درست نہیں ہوگا’’نماز‘‘مکمل نہیں ہوگی ۔کبھی سوچاکہ پہلے کے لوگ کام توتھوڑا کرتے تھے مگراس کے اثرات کثیرکیوں ہوتےتھے۔؟
اس کے پیچھے بس ایک ہی راز ہے : نیت ۔آج ہم اکثرکہتے ہیںبلکہ اب تویہ شکوہ عام ترہوچکاکہ کاموں میںبرکت نہیں ہورہی ۔جنابِ عالی!برکت نہ ہونے کاشکوہ کرنے سے پہلے ہمیں اپنے گریبان میںجھانک کردیکھ لینا چاہیے ،اگریہ چاک نظرآئے توسمجھ لیناچائیے کہ اندرکہیں نہ کہیں گڑبڑ ہےاورپھرہمیں اس کی’’ رفوگری‘‘ کی فکرکرنی چاہیےورنہ سمجھ لیناچاہیے کہ ہماری کوششیں چھلنی میں پانی بھرنے کے مترادف ہیں ۔ہماری کوششوں کاسفرہمیں تھکادے گا،پیروں کوچھلنی کردے گااورآخرمیں ہمیں بڑھاپے کی دیواروں سے ٹکرادے گا مگرجب ہم پیچھے مڑکردیکھیں گے اورنتائج کاتجزیہ کرنے بیٹھیں گے تواحساس ہوگاکہ نتائج اوراثرات کے نام پر ہمارے پلے میںکھوٹاسکہ بھی نہ آسکا،ایسا’’سکہ‘‘ جو واقعتاً ہمارے لیے تسکینِ قلب کاباعث ہواورہمارے لیے توشۂ آخرت۔اس لیے میرے ہم پیشہ ،ہم منصب دوستو!آئوہم سب بارگاہ رب العلیٰ میں بس ایک ہی دعا کریں: ’’بارالہ! ہمارے الفاظ میں معانی رکھ دے ۔‘‘