تحریر : جاوید ملک دو برس بیت گئے۔ دوسال پہلے کا وہ دن میری زندگی کے تلخ ترین دنوں میں سے ایک تھا۔ حبیب قریشی کی کال تھی آواز آنسوؤں میں رندھی ہوئی بے ربط سے جملے کہ وزیر داخلہ کرنل (ر) شجاع خانزادہ کے ڈیرے پر خود کش حملہ ہوا ہے۔ میں دیوانوں کی طرح کرنل (ر) شجاع خانزادہ کے قریبی رفقاء ملک انصار ،توقیر قریشی،ازہیر عباس،طارق دین اور نہ جانے کس کس کا نمبر ملا رہا تھا کوئی تو ہو جو میرے دوست کی خیریت کی خبر دے مگر کوئی بھی وثوق سے کچھ کہنے کے قابل نہیں تھا۔
میں اور ارم شہزاد افراتفری کے عالم میں اسلام آباد سے چھچھ روانہ ہوئے ۔ امیدوں اور اندیشوں میں گھرا یہ سفر کتنا کھٹن تھا یہ ہم ہی جانتے ہیں ۔گاڑی موٹروے پر فراٹے بھررہی تھی اور میں اپنے ایک پیارے دوست ڈی ایس پی شوکت شاہ کا نمبر باربار ملارہا تھا ۔ ہر بار جب اُن کا موبائل بند ملتا تو عجیب سی بے چینی گھیر لیتی۔میرا خیال تھا کہ شوکت شاہ درست اطلاع دیں گے مگر یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ اندوہناک حادثہ ہمارے اس دوست کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔
چھچھ پہنچے تو ایک عجیب سی سوگواری نے ہمارا استقبال کیا یوں دکھائی دیتا تھا جیسے کسی مصور نے دکھ ہر چہرے پر نقش کردیا ہو ۔ شادی خان میں تو کہرام مچا ہوا تھا ۔شجاع خانزادہ جس وسیع بر آمدے میں بیٹھ کر عوام الناس سے ملاقات کیا کرتے تھے وہ زمین بوس ہوچکا تھا امدادی ٹیمیں ناکافی وسائل کے ساتھ اس ملبے کے نیچے دبی لاشیں نکالنے کی کوششوں میں مصروف عمل تھی دھماکہ کس قدر شدید ہوگا اس کا اندازہ تباہی کے یہ مناظر دیکھ کر بہ خوبی ہورہا تھا اب تو امید نے بھی سانس لینا چھوڑدیا تھا۔
کرنل (ر) شجاع خانزادہ کے فرزند جہانگیر خانزادہ کے گلے لگا تو ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے آنکھوں کے سامنے جیسے یادوں کی ایک فلم سی چل رہی تھی۔سب یاد آرہا تھا کہ وہ کس طرح میرا خیال رکھتے تھے ایک انمول دوست تھے میری خوشیوں پر سب سے زیادہ خوش ہونے والے اور میرے دکھ پر مجھ سے زیادہ رنجیدہ ہوجانے والے ۔ ہروقت میری فکر کرتے ان کی محبت اور راہنمائی ہمیشہ میرے ساتھ رہی۔میں نے اپنی پوری زندگی میں ان سے زیادہ سچا اور کھرا انسان نہیں دیکھا مصلحت ان کو چھو کر بھی نہیں گزری تھی سیدھی بات کرتے چاہے اس کیلئے کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے ۔ مشرف دور حکومت میں پنجاب کابینہ کا حصہ تھے ۔ بلوچستان میں اکبر بگٹی کیخلاف اپریشن پر بلبلا اُٹھے اور اس وقت جب صدر مشرف کے سامنے کسی کو دم مارنے کی جرأت نہیں تھی پنجاب کے اس وزیر کے احتجاج نے سب کو چونکا دیا ۔ بات احتجاج اور بیانات تک نہ رکی بلکہ انہوں نے قومی اخبارات میں کالم لکھا جس میں واشگاف الفاظ میں بگٹی قتل کو بلوچستان میں پاکستان سے محبت کرنے والی سب سے مضبوط آواز کا قتل قراردیا۔
دھرتی ماں کی حفاظت کا حلف اُٹھایا تو پھر اس کا حق ادا کردیا ان کے فوجی کیریئر کا ہر باب ان کی شجاعت اور کامیابیوں سے رقم ہے۔افغانوار میں ان کا قابل تحسین کردار ہمیشہ ان کی عظمت کی داستان سناتا رہے گا ۔آئی ایس آئی کو دنیا کی بہترین ایجنسی بنانے والے افسران کی جب بھی فہرست مرتب ہوگی اس عظیم سپاہی کا نام ہمیشہ سرفہرست رہے گا۔ جب فوج سے ریٹا ئرمنٹ کے بعد سیاست میں آئے تو یہاں بھی ان کی قابل قدر خدمات تاریخ کا سنہری حصہ ہیں۔
عوامی خدمت کا جذبہ تو انہیں ورثے میں ملا تھا ۔ اور انہوں نے اپنے حلقہ کے عوام کی جو بھرپور خدمت کی اسے یاد کرکے آج بھی اہلیان چھچھ آبدیدہ ہوجاتے ہیں ۔ لیکن وطن عزیز میں امن کی بہار لانے کیلئے وہ دہشت گردوں کے مقابلہ میں جس طرح سینہ سپر ہوئے اور وطن دشمنوں کی جس طرح کمر توڑی اس سے سیاست دانوں کے قد میں بھی اضافے کا موجب بنے ۔ وطن عزیز میں دشمن ملک کی ایجنسیوں کی کٹھ پتلی بن کر دہشت پھیلانے والوں کیلئے شجاع خانزادہ کا نام دہشت بن گیااور انہوں نے دہشت گردوں کے قلع قمع کرنے کیلئے دن رات ایک کردیے۔ خطرات سے بے پروہ اس فوجی کا ایک ہی عزم تھا کہ میری قوم سکون کی زندگی گزارے اور دہشت گردی کو جڑسے اُکھاڑ پھینکا جائے۔
فضاء میں بارود اور خون کی بو رچ بس گئی تھی ہم کئی گھنٹوں سے ملبے کے اس ڈھیر کے سامنے کھڑے تھے لگ بھگ ساڑھے چار بجے کے قریب امدادی ٹیموں کے ایک رکن نے اشارہ کیا ، میں اور جہانگیرخانزادہ دوڑتے ہوئے اس حصے تک پہنچے جہاں سیمنٹ کی ایک سل کاٹ کر لاش نکالی گئی تھی ۔ پہلی نظر پڑتے ہی جیسے کسی نے دل کو مٹھی میں بھینچ لیا ہو ۔خاک اور خون میں لتھڑا یہ چہرہ میرے شجاع خانزادہ کا تھا ان کی وہ مخصوص مسکراہٹ جو ان کی شخصیت کا خاصہ تھی موت بھی ان سے نہ چھین سکی تھی ان کی مسکراہٹ جیسے مکروہ دہشت گردوں کا منہ چڑہا رہی ہو کہ تم ہم سے جیت نہیں سکتے۔ دھماکے میں ایسا بارود استعمال کیا گیا تھاجس سے چہرہ پھول گیا تھا اور رنگت سرمئی ہوگئی تھی۔
جہانگیر خانزادہ نے اپنا بازو میرے کندھے پر رکھا اور اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی سی گری اسی اثنا ء میں سہراب خانزادہ کو بھی بلایا گیا جو ’’یہ بابا ہیں ‘‘’’یہ بابا ہیں ‘‘ کی چیخ مار کر بلک بلک کر روپڑا کسی نے میرے ہاتھ میں سفید چادر تھمائی اور میں نے اپنے پیارے دوست کی لاش کو ڈھانپ دیا ۔ جہانگیر خانزادہ نے لمحوں میں اپنے آپ کو سنبھالا اس کی ہمت ،استقامت اور صبر نے میری نظروں میں اسکا قد اور بڑا کردیا وہ وطن کی حرمت پر جان نچھاور کرنے والے فوجی کا بیٹا تھا اور اپنے بابا کا مشن اسے پورا کرنا تھا یہ استقامت اور صبر اس کیلئے بہت ضروری تھا ۔ان دو سالوں میں جہانگیر خانزادہ نے حتی المقدور کوشش کی کہ جو امیدیں اُس کے عظیم باپ کی شہادت کے بعد لوگوں نے اُس سے وابستہ کی ہیں وہ اُن پر پورا اُترے ،نوجوان کم عمر اور ناتجربہ کار ہوتے ہوئے بھی آج میں یہ لکھتے ہوئے خوشی محسوس کررہاہوں کہ میرے شہید دوست کا بیٹا اپنے باپ کے نقش قدم پر رواں دواں ہے اور کیوں نہ ہو عوامی خدمت اُس کو ورثے میں ملی ہے۔
رات گئے اپنے عزیز دوست کو لحد میں اتارتے وقت سب ہی جذباتی تھے مگر حبیب قریشی کے آنسو روکے نہ رکتے تھے ۔ اسے یقیناًیاد آرہا ہوگا ایک بار کسی وجہ سے اس کی کرنل (ر) شجاع خانزادہ سے ناراضگی ہوگئی ۔ کرنل شجاع منانے اس کے گھر گئے اور پیار بھری خفگی سے کہا کہ حبیب تمہارا میرا رشتہ ایسے نہیں ٹوٹ سکتا یہ قبر تک کی دوستی ہے یا تم مجھے قبر میں اُتاروگے یا میں تمہیں اور آج وہ لمحہ آگیا تھا ۔ کرنل (ر)شجاع خانزادہ شہید کو خاک کفن اوڑھے آج دو سال ہوگئے ہیں ۔لیکن آج بھی کچھ سوال ہمارا منہ چڑھا رہے ہیں ۔دہشت گردی کے خلاف مردانہ وار لڑنے والے اس مجاہد کو مناسب سیکورٹی کیوں نہ دی گئی ؟ چھچھ کے لوگ آج بھی استفسار کرتے ہیں کہ اس حادثے کے بعد اٹک پولیس میں بڑے پیمانوں پر اکھاڑ بچھاڑ کا کیا مقصد تھا کہیں تفتیش کے نام پر صرف خانہ پری تو نہیں کی گئی ؟ ۔