تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ پانچ دہائیوں سے بنگلہ دیش کے ٦٦ ٹرانزٹ کیمپوں میں محب وطن پاکستانیوں کی استقامت و کسمپرسی سے زندگی گزارنے والوں کی داستان بیان کرتے ہوے دل خون کے آنسو روتاہے۔جب بھی پاکستان کی آزادی کادن آتا ہے وہ ان کیمپوں میں پاکستانی جھنڈے لہراتے ہیں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں آزادی پاکستان کی تقریبات منعقد کرتے ہیں۔پاکستان سے شدید محبت کا مظاہرہ اس طرح کرتے ہیں کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی جاری تحریک آزادی کشمیر کو تکمیل ِپاکستان کی تحریک کہتے ہیں۔ بنگلہ دیش میںساجدہ ضیا دور حکومت کے میں ان محب وطن پاکستانیوں کو بنگلہ دیش کی شہریت پیش کی گئی مگر یہ اس پرراضی نہیں ہوئے اور اپنے خوابوں کے مثل مدینہ اسلامی جمہوریہ پاکستان منتقل ہونے کی خواہش ظاہر کی۔
صاحبو! آج ہم آپ پر واضع کرنا چاہتے ہیں کہ عرف عام میں ہم جو محصوریں پاکستان کو بہاری کہتے وہ اس طرح ہے کہ وہ صرف صوبہ بہار سے ہجرت کر کے آنے والے بہاری مسلمان نہیں ہیں۔ بلکہ سابقہ مشرقی پاکستان کے قریب کے ہندوستان کے صوبوں سے سابقہ مشرقی پاکستان میں ہجرت کر کے آنے والے مسلمان ہیں۔ کیوں کہ ان میں زیادہ تعداد بہاری مسلمانوں کی ہے اس لیے عرف عام میں بہاری مشہور ہو گئے ہیں۔ ان کو اچھی طرح سے معلوم تھا کہ ان کے صوبوں میں پاکستان نہیں بننا تھا۔ مگر پاکستان کا مطلب کیا ”لا الہ الا اللہ” کا نعرہ سن کر اس پر عمل کیا اور اپنے ماں باپ، رشتہ داروں اور دوستوں کی قبروں کو چھوڑ کر صرف اور صرف اسلام کی پکار پر ہجرت کر مشرقی پاکستان آئے تھے۔ضرورت اس امر کی تھی کہ پاکستان حاصل کرنے کے بعد پاکستان میں قائد اعظم کے ویژن کے اور تحریک آزادی پاکستان کے دوران اللہ سے وعدے اور برصغیر کے مسلمانوں کی امنگوں کے مطابق امت مسلمہ کی خوابوں کی تعبیر مثل مدینہ ریاست میں اسلامی کی طرز کا نظام حکومت نافذ کر دیا جاتا تو مشرقی بازو ہم سے اسلام کے نام پر جڑا رہتا۔
دشمن قومیتوں کے ہزار قسم کے فریب دیتے، چھوٹے حقوق کے لا تعداد سبز باغ دکھاتے مگر ایک اسلام کے نام پر ہم ایک دوسرے سے درگرز کی پالیسی پر گامزن ہو کر ایک پاکستانی قوم بنتے۔ جیسے مسلمانوں نے دنیا کے تین براعظموںپر ہزار سال کامیابی سے حکومت کی تھی۔ مسلمانوں کی اس حکومت کے اندر مختلف ثقافتوں، تہذیبوں،تمدن اور زبانوں والی قومیں رہتی تھیں۔ ایک قرآن ایک رسولۖکے ماننے والے یک جان ہو کر رہے ۔ اس ہی کی تشریع کرتے ہوئے مفکر پاکستان، شاعر اسلام علامہ اقبال نے کہا تھا”ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے۔ نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر”کیا صرف بنگالی قوم اور بنگالی زبان بولنے والے اورہم ایک ساتھ نہ رہ سکے تو پھر یہ ہمارے عقل و دانش اور ہمارے مقتدر حلقوں کا قصور تھا۔
اس بات کو پاکستان بننے سے پہلے ہندو لیڈر کہا کرتے تھے کہ ہمیں پاکستان بننے کا اتنا ڈر نہیں ہے جتنا اس بات کا خوف ہے کہ جب یہ افغانستان،ترکی، ایران، عرب اور دنیا کے دوسرے اسلامی ملکوں سے مل جائے گا اور ہم اس کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ اسی ڈاکٹرائن پر عمل کرتے ہوئے ہندو لیڈرشپ نے مسلمان رہنمائوںکو قومیتوں اور سیکولرزم کے جال میں پھنسای اتھا جس کی پیدا وار سرحدی گاندھی مرحوم عبدالغفار خان ، سندھ کے غلام مصطفےٰ شاہ( جی ایم سید) جموں و کشمیر کے شیخ عبداللہ، بنگال کے شیخ مجیب الرحمان اور اس وقت تک زندہ کراچی کے الطاف حسین ہیں۔ جب ہماری قومی غلطیوں اور دشمنوں کی سازشیوں کی وجہ سے ہمارے ملک کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ پھر تو ہمیں بھولا ہواسبق یاد آجانا چاہیے۔ مگر ابھی تک تحریک آزادی پاکستان کے دوران اللہ سے کیا ہوا دعدہ ہمیں یاد نہیں رہا۔مسلم لیگ کہ جس نے پاکستان بنایا تھا اس کی لیڈرشپ اقتدار کی ہوس میں مبتلا ہو گئی۔ جو بھی اقتدار میں آتا ہے وہ سمجھ بیٹھاتا ہے کہ اس کی اکیلی شخصیت کے بغیر ملک نہیںچل سکتا۔ جیسے ڈکٹیٹر ایوب خان، ڈکٹیٹرضیاالحق، سولین ڈکٹیٹر ڈوالفاقار علی بھٹو،ڈکٹیٹر پرویزمشرف اور سابق سولین حکمران نواز شریف۔ اب سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف تاحیات نا اہل قراردے دیے گئے۔
حکومت نواز شریف پارٹی کی چل رہی ہے۔کیانواز شریف کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا؟ ان سب حکمرانوں نے اداروں کو مضبوط کرنے کے بجائے اپنی شخصیت کو مضبوط کیا۔ یہ سب اللہ سے کیے گئے دعدے کو پورا نہ کرنے کی وجہ سے مکافات عمل کا شکار ہو گئے۔آیندہ بھی ایسے حکمرانوں کا ایسا ہی حشر ہوگا۔اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے مقتدر لوگوں کو مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان میں فوراً اسلامی نظام حکومت قائم کر دینا چاہیے۔ ہم مسلمان ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ ہمارے ہر فعل کو دیکھ رہا ہے۔ جب ہم نے اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ جب وہ ہمیں انگریزوں اور ہندوئوں کی غلامی سے آزادی دے گا تو ہم اپنے ملک میںاللہ کا نظام رائج کریں۔ تواللہ نے ہمیں ملکِ پاکستان عطا کیا۔ ہم اپنے وعدے سے پھر گئے تو اللہ نے ہمیں سزادی اور ایک بازو ہم سے جدا ہو گیا۔ ہمارے ملک میں قومیتوں، لسانیتوں اور علاقیتوں نے بربادی مچا دی۔دشمن نے ہمیں آپس میںلڑا دیا اور ہمارے ہوااُکھڑ گئی۔ یہ سب اللہ کے قانون کے مطابق ہوا۔ اب ہم اللہ سے معافی مانگیں اور اللہ کا نظام پاکستان میں نافذ کر دیں۔پھر کشمیر کی جاری تحریک آزادی کو تقویت ملے گی۔ وہ پہلے سے زیادہ قربانیاں پیش کریں گے۔
اس سے دنیا کا ضمیر جاگے گا۔ بھارت پاکستان میں اسلامی نظام سے خوف زدہ ہو کر کشمیر کو آزاد کر دے گا۔ جس ملک میں اللہ کا نظام قائم ہو جاتاہے تو آسمان سے رزق برستا ہے۔ زمین اپنی خزانے اُگل دیتی ہے۔ ملک ترقی کرنے لگتا ہے۔شہریوں کو حقوق ملتے ہیں۔پھرآپس کی لڑائیاں ختم ہو جاتیں ہیں کوئی بھی عاجت مند نہیں رہتا۔ رسولۖ اللہ کی حدیث ہے کہ تم میری لائی ہوئی شریعت نافذ کر دو تو تمھیں کوئی بھی زکوٰة لینے والا نہیں ملے گا ۔یعنی سب لوگ صاحبِ نصاب ہو جائیں گے۔ ہمیں چاہیے کہ اس کام کے بعد محصوریں پاکستان کو باعزت طریقے سے پاکستان میںواپس بلائیں ۔ ان کا پانچ دہائیوں کا انتظار ختم ہو گا۔ اللہ ہم سے خوش ہو گا۔ذرا مکافات عمل ملاخطہ فرمائیں کہ ہم نے اللہ کے نام سے بننے والے ملک کے دو ٹکرے ہونے پر بنگلہ دیش میں پھنس جانے والے ڈھائی لاکھ محصورین پاکستان کو واپس نہیں لیا تو آج بیس لاکھ بنگالی مختلف راستوں سے آ کرپاکستان میں رہ رہے ہیں۔ افغانستان سے آنے والے پچاس لاکھ مہاجرین اس کے علاوہ ہیں۔ ہم مقتدر حلقوں سے درخواست کرتے ہیں کہ محصوریں پاکستان کو ہر حال میں واپس پاکستان لائیں تب ہم جشنِ آزاد ی پاکستان منانے کے صحیح حقدار ہو گے۔ اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین۔