تحریر : نبیلہ خان محبت کا لنڈا بازار کا پہلاحصہ آپ سب کی نظر کچھ عرصہ پہلے کر چکی ہوںتب بہت سے قارئین نے کہا کہ اس پر مزید لکھا جا سکتا ہے اور مجھے لکھنا چاہیے تھا مگر اس وقت میرے قلم نے الفاظ اگلنے سے انکار کردیا تھامگر آج پھر قلم بے قرار ہوکر اسی موضوع پر بہت کچھ لکھناچاہتا ہیاگلنا چاہتا ہے۔ ہاں تومیں اسی سلسلے کو پھر وہی سے جوڑتے ہوئے اپنی بات کو دوبارہ وہیں سے شروع کرتی ہوں۔فیس بک کے مضمرات پر میرا مضمون رکا تھاتب قلم نے بے باک ہونے سے انکار کیاتھامگر آج سب کچھ بہت کھل کے کہنے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔سب سے بڑا نقصان تو فیس بک کا یہ ہے کہ ہمارا نوجوان بڑی تیزی کے ساتھ گمراہیوں کی ان گہرائیوں کی طرف جارہاہے جہاں سے نکلنا دلدل سے نکلنے کے مترادف ہے۔ ہیلو ہائے سے شروع ہونے والی چٹ چیٹ جب زندگی کی حقیقتوں کی طرف سفر کرتی ہے تو ساری رنگینیاں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں اور خاص کر لڑکیوں اور خواتین کے لئے بظاہر بے ضرر مگر بے انتہا خطرناک چیز ثابت ہوتی ہے۔لڑکیاں اور بچیاں جو کہ فیس بک کے استعمال سے اتنی واقف نہیں ہوتیں ہیں۔
اپنی کم عقلی کے ہاتھوں ایسی ایسی سنگین غلطیاں کربیٹھتی ہیں کہ پھر ساری عمر پچھتاں اور سرپکڑ کر رونے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ فیس بک دجال کے فتنے کی طرح عام وخاص بچوںبڑوںبوڑھوںنوجوانوں کو اپنی لپیٹ میں ایسے لے چکا ہے۔جس سے بچنا بہت مشکل امر ٹھہرا ہے۔ فیس بک نامی جادوئی دنیا میں درحقیقت بڑے بڑے شیطانی ٹولے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ خاص کر معصوم لڑکیوں کو بے وقوف بنا کر ان کو غلط کاموں پر مجبور کرنابلیک میل کرناان سے پیسہ اینٹھناان کی خوبصورتی کوکیش کرنابڑے بڑے وعدے کرکے ان کو رنگین زندگی کے خواب دکھانا لگژریز کی طرف راغب کرنا نام نہاد شہرت اوردولت کے جال بچھاناایسے شیطانی ٹولوں کی وہ چالیں ہیں جن میں معصوم اور بے وقوف بچیاں آسانی نے جکڑی جاتی ہیں۔ اپنے ہاتھوں سے ہی اپنی کمزوریاں دوسروں کو سونپ دیتی ہیں اور پھر بلیک میل ہوتی رہتی ہیں۔فیس بک پر موجود بھیڑئیے نما انسان جب اپنی شیطانیت کی تسکین کے لئے کوئی وجود نہیں پاتے تووہ ذہنی عیاشی سے اپنے گندے نفس کی تسکین کرتے ہیں اورایسی ایسی باتیں کرتے ہیں کہ جن کو لکھنا میرے قلم کی توہین ہے۔مگر یہ ایک ایساکڑوا سچ ہے جس سے انکار کرنا یا جھٹلانا بلی کو دیکھ کر کبوتر کاآنکھیں بند کرنا۔ ذہنی عیاش لوگ سیکس چیٹ کے ذریعے اپنے نفس کی تسکین توکرتے ہی ہیں مگر ساتھ ساتھ معصوم لڑکیوں سے جھوٹے وعدوں اور دعوں کا وہ انبار لگاتے ہیں جو کبھی ایفا ہوہی نہیں سکتے۔الٹا ان کی زندگیوں کو برباد کرنے کا ذریعہ ضرور بنتے ہیں۔
میں یہ نہیں کہتی کہ اس میں عورت یا لڑکی سراسر بے قصور ہے مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ وہ مرد جو گھر میں بہنماں بیوی بیٹی رکھتا ہے اور ان کے لئے ہر وقت غیرت کانشان بناپھرتا ہے۔وہ بھی فیس بک پر اپنی ساری غیرت کووقتی تسکین کے ہاتھوں بے مول بیچ دیتا ہے۔یہاں ایک ایسا واقعہ لکھنا میری مجبوری ہے اگر نہ لکھوں تو میرے قلم کے ساتھ میری غداری ہوگی۔صدف اسماعیل:فیس بک آئی ڈی کانام کیوٹ پری:فرینڈ ریکوئسٹ آئی فہد مصطفی کی آئی ڈی سے۔خوشی کی انتہا نہ رہی بے تحاشا پاگل ہوتے ہوئے ایکسپٹ کی۔ یہ سوچے اور سمجھے بغیر کے کہ کیا واقع فہد مصطفی اتنا ویلا ہے کہ عام لوگوں کو ایڈ کرتا پھرتاہے۔ قصہ مختصر کہ بات ہیلو ہائے سے بڑھتے ہوئے پیار ومحبت اورعشق تک جا پہنچی ہے۔ صدف کی بے قوفی دیکھیں کہ وہ فہد مصطفی کو خوابوں میں بسائے جانے کیاکیا سوچے جارہی تھی۔جب محبت کے تقاضے بڑھنے لگے ایک دوسرے کو دیکھنے کی خواہش عروج پر پہنچی تو صدف کواحساس ہوا کہ میں توبالکل عام سی شکل وصورت کی مالک لڑکی ہوں اور فہد تو شہزادوں جیسا ہے تو دوسری طرف فہد صاحب (جو کہ فیک آئی ڈی کے مالک تھے) اور اب سچ میں صدف کی معصومانہ باتوں کی وجہ سے محبت میں گرفتار ہوچکے تھے اور حقیقت میں شادی کے خواہش مند تھے۔ پریشان ہوگئے کہ اب سچ کیسے بولا جائے جبکہ کیوئٹ پری بضد تھی کہ ویڈیو کال کے ذریعے فہد اسے اپنا گھراور لکژریزدکھائے۔فہد صاحب کوتب حقیقتا ایسے بولے گئے ہر جھوٹ پر شدید ندا مت ہوئی اور کیوٹ پری کو سچ بتانے کافیصلہ کیا۔
یہ سوچتے ہوئے کہ جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ کیوٹ پری نے صرف ایک عقلمندی یہ کی تھی کہ اپنی کوئی تصویرفہد کو نہیں بھیجی تھی فہد کو کیونکہ اسے اپنی کم صورت ہونے کااحساس ایسا کرنے سے روکتا رہا تھا۔ خیر فہد نے ایک دن اسے اپنے بارے میں سچ سچ بتا دیا کہ وہ فہد نہیں احمد ہے اور یہ بھی کہ وہ کیوٹ پری سے سچی محبت کرنے لگا ہے اور اس سے شادی کا خواہش مند ہے۔فہد کی سچائی سامنے آنے پر صدف کچھ دن تو سوگ کی کیفیت میں رہی مگر پھر احمد عرف فہد کی محبت غالب آگئی اور دونوں ایک بار پھر بات کرنے لگے۔جلد ہی دونوں نے ملنے کا فیصلہ کیا۔احمد نے سچ بولنے کے بعد پری سے کہا کہ اب ہم ایک دوسرے کو آمنے سامنے ہی دیکھیں گے۔تب دونوں نے ایک پارک میں ملنے کاپروگرام بنایا۔وقت مقرر کرنے اورایک دوسرے کو پہچاننے کے لئے نشانیاں مقرر کرنے کے بعد دونوں آف لائن ہوگئے اور اگلے دن ملنے کے خیال سے مسرور ہوتے ہوئے اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہوگئے۔
مقررہ وقت سے کچھ دیر پہلے ہی احمد پارک میں بے چینی سے پری کا انتظار کررہا تھا کہ اچانک سامنے سے آتی ہوئی لڑکی کو دیکھ کر چکراتے چکراتے بچا۔وہ کوئی اور نہیں اس کی اپنی بہن صدف اسماعیل تھی اور احمد اسماعیل کے سر پر جو پہاڑ گر ا سو گرا۔حالت صدف اسماعیل کی بھی کافی بری تھی کیونکہ کچھ نہ کہتے ہوئے بھی دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح پہچان چکے تھے اور شرمندگی کے باعث نظریں ملانے کے قابل نہیں رہے تھے۔احمد نے صدف کا ہاتھ پکڑا اور واپسی کی راہ لی مگر اس واقعے نے ان دونوں کو ایسا جھنجوڑا کہ آج دو سال بعد بھی وہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے بہت کم آتے ہیں ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے اور فیس بک سے تو ایسی توبہ کی ہے کہ آج تک ان دونوں نے دوبارہ اسے ہاتھ نہیں لگایا۔ گھر والے ان کے اس روئیے پر پریشان ہوتے ہیں کہ دونوں کوایساکیا ہوا کہ ایک دوسرے سے چھپتے پھرتے ہیں مگر دونوں نے اپنے ہونٹوں کو سی رکھا ہے اور اپنے اللہ سے اپنی اس غلطی کی معافی دونوں نے بہت دل سے مانگی ہے۔ یقینااللہ بخشنے والا ہے۔ اس واقعہ کو لکھنے کامقصد لوگوں میں شعور پیدا کرنا ہے۔فیس بک سے متعلق واقعات لکھنے بیٹھوں تو ایک کتاب کی شکل میں سامنے آئے گی۔مقصد واقعات سنانا نہیں بلکہ لوگوں کی عقلوں پر پڑی گرد جھاڑنا ہے۔