تحریر: فرید احمد فرید آج پتہ نہیں کیوں میرے جزو جزو سے آنسو بہہ رہے ہیں مجھے اک پل چین نہیں آ رہا میں اپنے قائد سے شرمندہ ہوں مجھے رونا آتا ہے میرے قائد کی روح میرا گریبان پکڑ کر سوال کرتی ہے بتا اے میرے بیٹے : کیا تو بھول گیا ہے یہ ملک کس طرح حاصل کیا گیا تھا لاکھوں قربانیاں دی ہیں تیرے جوان بھائی کٹے ہیں تیری ماؤں بہنوں کی عصمت پامال ہوئی ہے تیرے بزرگ کٹے ہیں خون کے دریا عبور کیئے ہیں لاکھوں زندگیاں اس ملک کی بھینٹ چڑھی ہیں .
اے میرے بیٹے یہ سب کیوں بھول گیا ہے کس چیز نے تجھے خواب غفلت کی نیند سلادی ہے تو کیوں نہیں جاگنا چاہتا تو کیوں نہیں جاگنا چاہتا بس کر اب میرے بیٹے اس وطن کے لیئے دی گء قربانیوں کو یاد کر جو خون بہا ہندوؤں کے بھالوں کی زینت بنے او چھوٹے چھوٹے بچوں کی شہادت کا تو پاس رکھ لے اپنی ماؤں بہنوں کی عزت کا تو پاس رکھ اپنے بوڑھوں کی عزت کا تو پاس رکھ لے اب اٹھ جا میرے بیٹے اس ملک کی بھاگ دور سنبھال لے یہ وطن اس لیئے تو نہیں حاصل نہیں کیا تھا کہ یہاں عزت و حقوق پامال ہوں یہاں کرپشن کا دور دورہ ہوں یہاں کی بھاگ دوڑ نا اہل لوگ سنبھال لیں.
ایسے لوگ جن کا سب کچھ باہر ہوتا ہے ان کا مال و دولت ان کا خاندان ان کا گھر وغیرہ یہ ادھر میرے ملک کو سونے کا انڈہ دینے والی مرغی سمجھتے ہیں اور ہر روز ایک انڈہ لینے کے باوجود یہ اس مرغی کا پیٹ چاک کرنا چاہتے ہیں ایسا کیوں ہے بھلاان کو کوئی خبر نہیں نا یہ کوئی خبر رکھنا چاہتے ہیں آزادی کے نام پر منائے گئے جشن کو دیکھنا چاہتے ہیں تو13 اگست کی شب اور14 کو لاہور شہر کا رخ کیجیے یہ تو پاکستانی قوم کا خاصہ نہیں رہا کہ وہ سارا سارا دن ناچ گانا کرتی رہے یہ تو ایسی قوم ہے جو سجدہ شکر ادا کرتی ہے اس کے بیٹے گھنٹوں سجدے میں رکھ کر شہادت اور ملک سلامت رہنے کی دعا کیا کرتے تھے لیکن اب گھنٹوں ناچ کر پاکستانی ہونے کا ثبوت دیا جاتا ہے.
میں ایسی خواب غفلت کا شکار ہوں جس سے میں اٹھنا نہیں چاہتااے میرے قائد میں جاگنا نہیں چاہتا میرا ضمیر سویا ہوا ہے میں خواب غفلت کی گہری نیند سویا ہوا ہوں میرے قائد میں شرمندہ ہوں افسوس میں آپکے افکار اور خیالات کو اپنا نہ سکا میرے قائد جتنے بھی آپکے بعد آئے سب نے ملک کو کھایا اپنی اپنی پوٹلیاں بھری کوئی ایسا نہیں جو مجھے جھنجھوڑتا اسی لیئے میں بھی ان جیسا ہوگیا ہوں میں نہیں جاگنا چاہتا مجھے اب سونا ہے مجھے سونا ہے.