خود کو الگ کیوں کیا، ابھی بتانا مناسب نہیں، ڈان لیکس رپورٹ پبلک ہونی چاہئے۔ چودھری نثار

 Chaudhry Nisar

Chaudhry Nisar

اسلام آباد (جیوڈیسک) سینئر لیگی رہنماء اور سابق وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے شہر اقتدار میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 24 دن بعد آج پھر میڈیا سے بات کر رہا ہوں، میں نے یا میرے کسی قریبی آدمی نے کوئی خبر لیک نہیں کی، میرے حوالے سے کچھ خبریں گردش کر رہی تھیں جن میں سے کچھ غلط ہیں لہٰذا 24 دن بعد کچھ نہ کچھ وضاحت دینا تھی، سوا 4 سال تک بطور وزیر داخلہ کام کیا، اپنی کارکردگی پر کبھی اپنے منہ میاں مٹھو نہیں بنا، کچھ لوگ ہمیشہ مجھ پر تنقید کے تیر چلاتے رہے حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ وزارت داخلہ کی قانونی یا آئینی اتھارٹی کیا ہے، وزارت داخلہ ایک پالیسی بنانے والا ادارہ ہے۔

چودھری نثار بولے، یہاں ٹونٹی ٹونٹی پر فوکس ہوتا ہے، کسی کی ٹیسٹ پر توجہ نہیں، کسی کی کارکردگی پر توجہ نہیں دی جاتی، کسی کو جلسے جلوس کی اجازت نہ ملی تو وہ بھی مجھ پر ڈال دیا گیا، کسی کی کمزوری یا کوتاہی کی ذمہ داری بھی وزارت داخلہ پر ڈال دی جاتی ہے، سوائے ایک مرتبہ کبھی بلاجواز تنقید کا جواب نہیں دیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ صرف سانحہ لعل شہباز قلندر کے موقع پر تنقید کا جواب دیا، داخلی سکیورٹی کا کام نہ ختم ہونے والا ہے، 2014ء میں روزانہ 5،6 دھماکے ہوتے تھے، کوشش کی تمام سٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر چلوں، پاکستان آج ان ممالک میں سے ہے جہاں دہشتگردی کا گراف نیچے آیا، آج پاکستان کی سرزمین پر دہشتگردی کا نیٹ ورک نہیں ہے، اب دہشتگرد صرف کمزور ٹارگٹس کو نشانہ بناتے ہیں۔ وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ میں نے پاک افغان بارڈر مینجمنٹ پر کام کیا، بارڈر پر باڑ لگنی شروع ہو چکی ہے، کراچی ایئرپورٹ پر حملے کے بعد ملٹری آپریشن کا فیصلہ کیا گیا تھا، ملٹری آپریشن پر تحفظات کے باوجود سب سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا۔

چودھری نثار نے مزید کہا کہ ان کے دور میں ہزاروں جعلی شناختی کارڈ بلاک کئے گئے، 32 ہزار پاسپورٹس منسوخ کئے گئے، 10 ہزار سے زائد نام ای سی ایل سے نکالے گئے، 2 لاکھ سے زائد اسلحہ لائسنس منسوخ کئے گئے، طور خم بارڈر پر بغیر دستاویزات روز 30 ہزار لوگ آتے جاتے تھے، حیران ہوا شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اسلحہ لائسنس پر پابندی لگائیں گے، ہم تو پہلے ہی پابندی لگا چکے تھے، میں نے اسلحہ لائسنس کی تصدیق کرائی، 2 لاکھ سے زائد ممنوعہ بور کے لائسنس منسوخ کئے، سرحدوں پر فینسنگ کیلئے اربوں روپے لگائے جا رہے ہیں۔

چودھری نثار نے مزید کہا کہ پہلی مرتبہ این جی اوز کو دائرے میں لائے، صرف 70 این جی اوز کو قانون کے مطابق کام کی اجازت دی، اسلام آباد میں غیرملکیوں کا ریکارڈ وزارت کے پاس ہے، غیرملکیوں سے چوبیس گھنٹے کے نوٹس پر گھر خالی کرائے، مجھ سے پہلے ڈرگ سمگلنگ میں ملوث افراد کو چھوڑ دیا جاتا تھا، اب کسی کو ایئرپورٹ پر ویزہ نہیں مل سکتا۔

سابق وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ آزاد میڈیا سے شکوہ نہیں لیکن سیکشن آف میڈیا سے شکوہ ہے، بہت سارے کام ہونا ابھی باقی ہیں، صدق دل سے داخلی سکیورٹی میں بہتری کیلئے کام کیا، آج کراچی ایک آدمی کے پاگل پن کا غلام نہیں ہے، سٹیک ہولڈرز کے اتفاق سے کراچی میں امن آیا، سول ملٹری تعلقات میں اب مسئلہ نہیں ہے، ہمیشہ تمام ایجنسیوں نے بھرپور تعاون کیا، مجھے کبھی کسی مسئلے کا سامنا نہیں کرنا پڑا، کراچی آپریشن جب غلط روش پر گیا تو سندھ حکومت نے اختلاف کیا، مجموعی طور پر سندھ اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں نے تعاون کیا، آج بھی بہت زیادہ پریشرز ہیں، ای سی ایل کے حوالے سے آج بھی دباؤ ہے، دوستی اور تعلق کا دباؤ ہوتا ہے۔

چودھری نثار نے مزید کہا کہ میں نے پچھلی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ آج بھی اپنی پارٹی کے ساتھ ہوں، میڈیا پر آیا کہ شاید میں نے سیاست چھوڑ دی، میں نے ایسا نہیں کہا تھا، شاید میں صحیح طریقے سے سمجھا نہیں سکا، رائے کا اختلاف آج بھی ہے، کتنے لوگ ہیں جنہوں نے اصولوں پر استعفیٰ دیا؟ نواز شریف اور وزیر اعظم مجھے کابینہ میں آنے کیلئے قائل کرتے رہے، پارٹی اجلاس میں اپنے اختلافات کھل کر بیان کرتا ہوں، پارٹی اجلاس کی خبر لیک کرنے والا بددیانتی کرتا ہے، میں ایسا نہیں کرتا، مشرف کو عدالت کے حکم پر بیرون ملک جانے دیا، جنرل مشرف کا کیس جن عدالتوں میں چلا تھا ان کے فیصلے دیکھیں، عدالتی حکم ملا تو روکنے کا جواز نہیں بنتا تھا، ضمانتیں عدالتیں دیتی ہیں، ہم نہیں، بنیادی طور پر سوا 4 سال جو کام کیا وہ ریکارڈ پر لانا تھا، جس کے منہ میں جو آئے وہ بولتا جائے، میں ذمہ دار نہیں ہوں۔

ایک سوال کے جواب میں چودھری نثار بولے ڈان لیکس کی انکوائری کا حکم حکومت نے دیا، اگر رپورٹ پبلک نہیں ہوئی تو حکومت سے پوچھیں، یہ میرا کام نہیں۔ صحافی نے سوال کیا کہ اس ساری صورتحال کا ذمہ دار کس کو سمجھتے ہیں؟ تو چودھری نثار بولے، ہم سب ذمہ دار ہیں۔ سابق وفاقی وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ بندہ وفاقی وزارت سے ایسے ہی الگ نہیں ہوتا، کوئی ایشو ہوتے ہیں، عام حالات ہوتے تو شائد ذکر کر دیتا، نارمل حالات نہیں ہیں، پارٹی اور لیڈرشپ مشکل میں ہے، اس لئے وجوہات پبلک نہیں کروں گا۔