واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکہ کے وزیرِ خارجہ ریکس ٹلرسن نے خبردار کیا ہے کہ اگر پاکستان نے طالبان اور دیگر شدت پسند گروہوں کے ٹھکانے ختم نہ کیے تو امریکہ اس کے خلاف تادیبی کارروائی پر غور کرسکتا ہے۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے جنوبی ایشیا سے متعلق اپنی حکومت کی نئی پالیسی کے اعلان کے ایک روز بعد منگل کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹلرسن نے کہا کہ اگر پاکستان نے افغان شدت پسندوں کو پناہ فراہم کرنا جاری رکھی تو امریکہ اس کی امداد بند کرنے اور اس سے نان-نیٹو اتحادی کی حیثیت واپس لینے سمیت کئی دیگر اقدامات پر غور کرسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ واشنگٹن، اسلام آباد کے ساتھ مل کر کام کرنے کا خواہش مند ہے لیکن اس کے لیے پاکستان کو اپنی سرزمین پر موجود دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ختم کرنے ہوں گے۔
امریکی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ واضح کرچکے ہیں کہ دہشت گردوں کے ٹھکانے جہاں بھی ہوں گے امریکہ انہیں نشانہ بنائے گا۔
منگل کو امریکی محکمۂ خارجہ میں ایک پریس بریفنگ کے دوران ریکس ٹلرسن نے افغانستان کے مسئلے کو سلجھانے کے لیے پاکستان اور بھارت کے مشترکہ تعاون پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کو تینوں ممالک کی ضرورت ہے اور پاکستان کو بھارت سے اپنے اندرونی مسائل بھلا کر پورے خطے کے امن وامان کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔
امریکی وزیرِ خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ ان کا ملک پاکستان اور بھارت سے اپنے تعلقات پر نظرِ ثانی کررہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ افغانستان کے مسئلے کو حل کرنے میں اتنی تاخیر ہورہی ہے۔
ریکس ٹلرس نے افغانستان کے مسئلے کے حل میں بھارت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان بھی افغان طالبان سے مذاکرات کرانے میں ایک اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
ٹلرسن کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے شہریوں نے دہشت گردوں کے ہاتھوں جتنا ظلم سہا ہے اتنا ہم نے کہیں اور نہیں دیکھا۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے افغانستان کے لیے بھارت کو ایک اہم ‘اسٹریٹجک پارٹنر’ قرار دیتے ہوۓ کہا کہ افغانستان کی معاشی ترقی اور فلاح و بہبود کے لیے بھارت کی کوششیں اہم ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اگلے ہفتے بھارت افغانستان کے لیے ایک اکنامک کانفرنس کی میزبانی کر رہا ہے اور ان کے بقول نئی دہلی کی ایسی تمام کوششوں کا مقصد افغانستان کے ساتھ تجارت اور باہمی تعلقات کو فروغ دے کر خطے میں امن قائم کرنا ہے۔
اس سے قبل پیر کی شب جنوبی ایشیا سے متعلق اپنی نئی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ پاکستان اربوں ڈالر کی امریکی امداد لینے کے باوجود شدت پسندوں کو پناہ فراہم کر رہا ہے جو امریکہ اور امریکی قوم کے دشمن ہیں۔
صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ اگر پاکستان نے دہشت گردوں کی پشت پناہی جاری رکھی تو اس کا نقصان بھی سب سے زیادہ اسے ہی اٹھانا پڑے گا۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے صدر ٹرمپ کے پالیسی بیان پر اپنے ابتدائی ردِ عمل میں کہا ہے کہ امریکہ محفوظ پناہ گاہوں کے غلط دعووں کے بجائے دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں پاکستان کا ساتھ دے۔
بیان میں پاکستان نے دہشت گردوں کو پناہ دینے کے امریکی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کی نئی پالیسی میں پاکستان کی قربانیوں کو نظر انداز کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستانی جنوبی ایشیا میں قیامِ امن اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے۔
پاکستان کے دیرینہ اتحادی چین نے بھی نئی امریکی پالیسی پر اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ عالمی برادری کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرنا چاہیے۔