تحریر : حسیب اعجاز عاشر میرے چہرے کی شگفتگی اُردو ادب کا کمالِ خاص ہے۔۔اگر میں غزل گائیک نہ ہوتا،توشاید نہ ہوتا: رُوبرو میں اُستاد غلام علی کا اظہارِخیال عزت افزائی کیلئے بزم اُردو دبئی نے جو انداز و طریقہ اختیارکیا، دل کی اتہاہ گہرائیوں سے ممنون ہوں: مشتاق احمد یوسفی کا ویڈیو پیغام اُردو ٦٠٠ ملین لوگوں کی بولے جانے والی دنیا کی چوتھی بڑی زبان ہے، اِسکی پھر سے گھروں میں ترویج کرنی ہے : ریحان خان لال قلعہ کا آخری مشاعرہ (تمثیلی مشاعرہ) نے خوب محفل جمائی۔”ماضی” اور ”حال” کی دلچسپ مکالمہ بازی سے شرکاء لطف اندوز ہوئے کبھی تالیوں سے اور کبھی قہقوں ے انڈین ہائی سکول کا کچھا کچھ بھرا شیخ راشد ایڈیٹوریم ہال گونجتا رہا۔بہترین انتظام و انصرام کو شرکاء محفل سے خوب پسند کیا۔
جس نت نئے انداز،پیراہے ،ذاویوںمیں اُردو کی چاشنی سے رستیِ اِس محفل کو سجا گیا تھا، قابل دید بھی تھا ،قابل رشک بھی ،قابل تعریف بھی اور قابل تقلیدبھی۔۔بڑے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ ”بزم اُردو،دبئی” کی کاوششوں سے پاک و ہند کی تہذیب کی سنہری تاریخ سے مزین کتب میں سے اُردو ادب کے اوراق کبھی پھیکے نہیں پڑ سکتے ۔
اکثر لکھاری کے لئے منعقدہ تقریب کی کامیابی کا تاثر پیدا کرنے کیلئے ، منفرد وپُرکشش الفاظ کا چُنائو،پھر اِن کے ردوبدل اور اُلٹ پلٹ کرنے ، بار بار تحریر کے بنائو سنگھار، گویاقارئین کی توجہ لینے کیلئے روشنائی سے اندھیروں میں روشنی بھرنے کیلئے ناجانے قلم و قرطاس کے ساتھ کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں۔۔۔مگرکبھی صورتحال یکسر مختلف ہوتی ہے۔۔کیونکہ تقریب ہی ایسی رنگین ودلفریب،شاندار و یادگار ہو تی ہے کہ سر کو دُھننا نہیں پڑتا ،بلکہ الفاظ خود ہی عطا ہوتے رہتے ہیں۔اور کڑیوں سے کڑیاں ملتے ہوئے ایک تحریر بن ہی جاتی ہے۔یہاں بھی ایک ایسا ہی احوالِ تقریب پیش خدمت ہے۔
بزمِ اُردو دبئی کے زیراہتمام ‘ تین حصوں پر مشتمل تقریب’محفلِ اُردو٢٠١٧”متحدہ عرف امارات میں اُردو ادب کی تاریخ میں اپنی نوعیت کی ایک منفرد تقریب تھی۔انڈین ہائی سکول، ڈیرہ دبئی کاشیخ راشد ایڈیٹوریم ہال وقت سے پہلے ہی اہل ذوق حضرات کی کثیر تعداد سے کچھا کچھ بھر چکا تھا، مین گیٹ پر پُرجوش ہستے مسکراتے چہروں کیساتھ انتظامیہ شرکاء کے پُرتپاک استقبال کیلئے موجود تھی ۔جبکہ شرکاء کو اُنکی مخصوص نشستوں تک لے جانے کیلئے ہال کے اندر بھی انتظامیہ کی جانب سے ذمہ داران چاک و چابند تھے۔۔لیجئے !۔تقریب کا آغاز ہواجاتاہے۔۔۔ قمقمے مدھم ہونے لگے اور اچانک صنف ِ ناک کی سریلی آواز”میں ہوں ترنم احمد” سماعتوں سے ٹکراتے ہی شرکاء کی نظریں سٹیج کی جانب جم جاتی ہیں۔۔۔ترنم نے بڑی خوش اسلوبی سے پروگرام کا سرسری تعارف پیش کیا ،شاعر”مومن”کا ذکر آتے ہی”تم اُس مومن کا ذکر تو نہیں کر رہی ؟ جو۔۔۔۔۔”کہتے ہوئے ایک شخص(عزیر) سٹیج پر لگے دوسرے ڈائس پر جلوہ آفروز ہوا ۔اور پھر دونوں میں ایک دلچسپ مکالمہ بازی کا آغاز ہوا ۔ترنم کی گفتگو سے یہ تاثر واضح تھا کہ وہ ادب کا ”حال ”ہیں جبکہ عزیر اپنی باتوں سے ”ماضی” کا تاثر دے رہے تھے۔ایک اگر حال کو بہتر بتانے پر بضد نظر آتاتو دوسرے ماضی میں ادب کو قابل رشک ثابت کرتا اگر ماضی میں ادب کو معیاری کہا جاتا تو دوسری جانب سے حال میں فروغ ادب کی کاوششوں کو مثالی قراردیا جاتا۔منتخب جملوں اور دل موہ انداز سے حاضرین بہت لطف اندوز ہوتے رہے۔
”دل میں جھانکو تو ماضی حال میں آجاتاہے” اِس متفقہ رائے کے بعد ترنم کا کہنا تھا کہ ریحان خان اُردو کے عاشق ہیں حال میں رہتے ہوئے ماضی پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ عزیر سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ ماضی ہیں اور میں حال تو مستقبل کون ہے؟ ۔دونوں نے ہاتھوں کو حاضرین محفل کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا ”مستقبل آپ ہیں” اور یوں تالیوں کی گھن گرج میں ریحان خان کو ڈائس پر مدوح کیا گیا۔ ریحان خان نے اظہارخیال کرتے ہوئے کہا جی بالکل۔۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ اُردو ادب کا مستقبل آپ سب ہیں۔ مگر قابل فکر بات یہ ہے کہ ہمارے مستقبل کو اپنی زبان کے تہذیبی نقطہ نظر پر احساس کمتری ہوگیا ہے۔انگریزی بول چال کا رحجان فروغ پا رہا ہے جب کہ یہ صرف کام کاج کی حد تک محدود زبان ہونی چاہیے تھی۔٦٠٠ ملین لوگوں کی بولے جانے والی دنیا کی چوتھی بڑی زبان اُردو کی ترویج کا آغاز پھر سے اپنے گھروں سے کرنا ہوگا۔اُنہوں نے اِس عزم کا بھی اظہار کیا کہ اُردو زبان کے حوالے سے کوئی مشاعرے یا غزل گائیکی کے انعقاد کا ارادہ رکھتا ہوں ”بزم اُردو دبئی” ہر ممکنہ تعاون کریگی۔
لب و لہجہ سے خوشبو گھولنے والی زبان” اُردو ”کی محفل ہو اور غزل کا ذکر نہ ہو۔یہ ناممکن ہے۔۔اور پھرغزل کا ذکر ہو اور اُستاد غلام علی کا نام نہ لیا جائے ۔یہ بھی ناممکن ہے ۔۔غزل کا صنف سخن اپنے وجود کے اعتبار سے نازک ہی صیح مگرگائیکی کے اعتبار سے اُتنا ہی مشکل ترین ہے۔ بڑے بڑے کلاسیکل اساتذہ کو غزل گانے کے لیے کہہ دیا جائے تو وہ فن موسیقی کی باریکیوں سے واقف ہونے کے باوجود غزل گائیکی سے راہ ِ فرار حاصل کر لیتے ہیں۔مگر اُساتذہ سے سیکھنے کی ٹرپ اور پھر برسوں کی ریاضت کی بدولت اُستاد غلام علی نے کلاسیکل موسیقی کوجس آن بان شان کے ساتھ زندہ رکھا ہوا ہے،بے مثالی ہے۔تلفظ،سروں پر گرفت ،موسیقی پر دسترس ،میٹھی آواز کا جادو اورسادہ اندازِ گائیکی،کی وجہ سے غزل گائیکی میں وہ مقام بنایاکہ ساراعالم ان کی جانب رشک بھری نگاہوں سے دیکھ رہاہے۔غلام علی صاحب بلا شبہ بیسویں اور اب اکیسویں صدی میں بھی ”غزل گائیکی” کے حوالے سے ایک بہت بڑا قابل قدر نام ہیں۔ پاکستان اور بھارت میں متعدد ایوارڈز اور اعزازات حاصل کر چکے ہیں۔١٩٧٩ء میں حکومت پاکستان کی جانب سے انھیں ان کی فنی صلاحیتوں کے اعتراف میں حسن کارکردگی کا صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے ۔
ناصر کاظمی صاحب نے کسی موقع پر کہا تھا کہ ”غلاعلی صاحب کی گائیکی کا خاصہ یہ ہے کہ وہ کسی ایک راگ میں غزل گاتے ہوئے اس راگ کے قریب کے سروں کی آمیزش سے اپنی غزل کو خوب صورت بناتے ہے”جبکہ ہری ہرن کا کہنا ہے کہ” غزل گائیکی میں مہدی حسن اور غلام علی کی مثال نہیں”لتا ،آشا بھوسلے، محمد رفیع سمیت برصغیر میں کوئی ایسا گائیک نہیں جس نے غلام علی کے فن کو تحسینی کلمات سے نہ نوازا ہو۔
اُستاد غلام علی کی فروغِ اُردو ادب کیلئے اِنکی گراں قدر خدمات کے حوالے سے ”بزم اُردو ٢٠١٧”کے حصہ اول میں غیر رسمی اندازِ گفتگو کیلئے بعنوان ”روبرو”میں شگفتہ یاسمین اور اُستاد غلام علی کوسٹیج پر مدوح کیاگیا،حاضرین محفل نے تالیوں کی گونج میں غلام علی صاحب سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کیا۔ اِس سے قبل ”یہ دل یہ پاگل دل میرا”، ”چپکے چپکے ر ات دن آنسو بہانہ یاد ہے” سمیت غلام علی صاحب کی چند مشہورِ زمانہ غزلوں کی سُریلی دھنوں کی مختصر آڈیو کو بھی سماعتوں کی نذر کیا گیا ۔جسے شرکاء کی تالیوں اور واہ واہ کی داد و تحسین نے سندِ پسندیدگی سے نوازا ۔شگفتہ یاسمین کا کہنا تھا کہ مدتوں تاریخ کو انتظار کرنا پڑتا ہے پھر غلام علی جیسی ہستیاں سامنے آتی ہیں انکے لہو میں اُردو تہذیب ایسے رچ بس چکی ہے کہ اِن کے نقش زمانہ کبھی بھولا نہیں سکتا۔ مختلف سوالات کا جوابات دیتے ہوئے اُستاد غلام علی کا کہنا تھا کہ اُستاد کبھی نہیں مرتے میرے اُستاد ہمیشہ زندہ رہے گے، مجھے ٹیسٹ کیلئے لائف کلاسیکل رانگنی گانے کو کہا گیا،اللہ نے مجھے گانے کی ہمت دی اور یوں میں اُنکی شاگردی میں آ گیا۔میری آواز میری نہیں یہ سب میرے اساتذہ اور والدین کی دعائوں کا اثر ہے۔پُرانی یادوں کی کتابوں کے اوراق سے دھول اُڑاتے ہوئے کبھی غلام علی کے چہرے پر افسرودگی چھا جاتی اور کبھی جگ مگا اُٹھتا اور کبھی خود ہستے اور شرکاء کو بھی خوب ہنسا دیتے۔”سا،رے،گا،ما،پا،دی،نی ،سا”کا راگ گانے پر جو اُستاد سے نقد انعام ملا، اور اُستاد کی فرمائش پردن بھر کی مشقت برداشت کرتے ہوئے دور دراز سے گھی لانے اور چہرے کے تھکاوٹ کے تاثرات ظاہر ہونے کے باوجود زبان سے بیان نہ کرنے پر ،اُستاد سے دعائیں لینے ، جیسے واقعات کو حاضرین نے بڑی دلجمعی سے سُنا۔ریڈیوپاکستان میں ”نوائے شوق”کے ایڈیشن میں منتخب ہونے پر جو اُستاد غلام علی نے اُن لمحات کی منظر کشی کی شرکاء بہت لطف اندوز ہوئے ۔اُنہوں نے بتایا غزل گائیک تو بہت تھے مگر ناصر کاظمی کو مجھ سے بہت پیارتھا وہ کہتے تھے کہ ”غلام علی میرے من کو راضی کرتا ہے ،اُردو ادب کو راضی کرتا ہے”۔ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میرے چہرے کی شگفتگی اُردو ادب کا کمالِ خاص ہے۔ شگفتہ یاسمین کے اِس سوال پر کہ کام کیا۔کیا عشق بھی کیا؟ جواب ملا جی دو تین کلو۔۔۔ہال میں قہقوں کی لہر دوڑ گئی۔دبئی سے وابستہ چند پُرانی یادوں کو پیش کرتے ہوئے جب یہ کہاکہ کئی برسوں قبل دبئی ایئرپورٹ سے باہر گرمی کا یہ عالم ہوتا تھا جیسے دوزخ چند کلومیٹر پر رہ گئی ہو۔۔۔تو شرکاء ہس ہس کر لوٹ پوٹ ہوگئے۔ اگر آپ غزل گائیک نہ ہوتے تو کیا ہوتے؟ غلام علی صاحب کا کہنا تھا کہ میں غزل گائیک نہ ہوتا تو مجھے ہونا بھی نہیں چاہیے تھا۔ اور یوں شگفتہ کے اِس شعر پر تقریب کا پہلا حصہ اختتام پذیر ہوا کہ
آپ مہمان نہیں رونق محفل ہیں ہم یاد رکھیں گے کہ کوئی آیا تھا۔
ماضی اور حال کے پھر ایک دلچسپ مکالمے کے بعد تقریب اگلے پڑائو کی جانب بڑھی۔جوشِ اُردو ایوارڈ٢٠١٧کیلئے اُردو زبان کے فروغ کیلئے ناقابل فراموش خدمات پیش کرنے والے جناب مشتاق احمد یوسفی کا انتخاب کیا گیا تھا۔مشتاق احمد یوسفی, ستارہ امتیاز، ہلال امتیاز ، ڈی لٹ (اعزازی) کا شمار ایک رحجان ساز اور صاحب اسلوب مزاح نگار میں ہوتا ہے۔مشتاق احمد یوسفی کی پیدائش 4 ستمبر، 1921ء ریاست ٹونک، راجھستان، ہندوستان میں ہوئی۔ آپ نے ابتدائی تعلیم راجپوتانہ، ایمـاے (فلسفہ) آگرہ یونیورسٹی، ایل ایل بی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (AMU) سے حاصل کی۔ تقسیم ہند کے بعد کراچی تشریف لے آئے ۔کامیاب ترین بینکر ہونے کے علاوہ طنزومزاح میں بلند پایہ مقام حاصل کرنا اِنہی کا خاصہ ہے۔
مشتاق احمد یوسفی صاحب شدید علالت کے باعث تقریب میں شرکت سے قاصر رہے۔ مگر ایوارڈ نوازنے کے حوالے سے ٹی وی سکرین پر ویڈیو کلب پلے کیا گیاجس میں بزم اُردو دبئی کی جانب ظہورالاسلام جاوید اور تابش زیدی مشتاق احمد یوسفی کی خدمت میں کراچی میں اُنکی دولت کدہ پر جوشِ ایوارڈ ٢٠١٧ پیش کر رہے تھے ۔ عنبرین حسیب عنبر کے چند پوچھے گئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے یوسفی صاحب کا کہنا تھا کہ میری عزت افزائی کیلئے جو صورت اختیار کی گئی قابل ستائش ہے،اج اِس روایت کو بدلتے ہوئے دیکھ رہا ہوں کہ زندہ کی بھی تعریف ہورہی ہے ورنہ تو یہ مرنے کے بعد بھی یاد کیا جاتا ہے ۔۔اِس مزاحیہ جملے پر شرکائِ محفل خوب ہنسے کہ ”لگتا ہے انتظامیہ نے کچھ عجلت دیکھائی ہے”۔مسکرانے ،کھلکھلانے کا سلسلہ عروج بام کو چھونے لگا جب عنبرین کے اِس سوال پرکہ آج لکھنے والے کا تلفظ،بولنا،لکھنا سب غلط ہے،آپ کیا کہتے ہیں؟جواب ملا کہ دوسروں کی بدچلنی پر تبصرے کا حق کسی بدچلن کو ہی ہوسکتا ہے۔اُنہوں نے کہا کہ تلخی اور مٹھاس ہمارے اندر ہوتی ہے ،یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کس کو کھیلنے کا موقع دیتے ہیں اور کس کوضبط کرتے ہیں ۔بعدازاں بھارت سے تشریف لائے معروف آرٹسٹ ڈاکٹر سعید عالم اور ویشنو شرما نے مشتاق احمد یوسفی کی تصا نیف سے منتخب طنزومزاح پر مشتمل ا قتباسات پیش کر کے سماعتوں میں خوب رس گھولتے رہے،کچھ یوں بھی گماں ہونے لگا کہ جیسے ہال کے درودیوار بھی مسکرا اُٹھے ہوں۔ ایوارڈ کا سلسلہ پھر شروع ہوا اور بزم اُردو دبئی کا پہلا علم داراُردو ایواڈ بدست مباک عزت ماٰب سہیل زرعونی اور شکیل خان کے اُستاد غلام علی کو پیش کیا گیا،جبکہ ذیشان حیدر بھی ہمراہ تھے۔پاسبان اُردو ایوارڈ کیلئے ڈاکٹراُتم کمار کی قسمت جگمگا اُٹھی۔مجلے کی رونمائی عمل میں لائی گئی جس کے لئے تمام مہمانان خصوصی کے علاوہ شکیل احمد خان، ریحان خان سمیت ندیم احمد، معراج احمد نظامی، سید تابش زیدی، شبی قریشی، محمد عزیر عتیق،عائشہ جنتی، شاداب، عبدالصبور، سید اطہر عباس، سعود مدنی، احیاء بھوج پوری، سرور نیپالی،سید سروش آصف اور محمد شاداب بھی سٹیج کی رونق میں اضافہ کررہے تھے۔
ڈاکٹر اُتم کمار نے ا’ردو زبان کے انسانی ذہن پر اثرانگیز ہونے کے حوالے سے اپنی ریسرچ بارے حاضرین کو آگاہ کیا اُنکا کہنا تھا کہ اُردو انتہائی گہری زبان ہے لہذا اس کو پڑھنے کیلئے دماغ کے زیادہ حصوں کو استعمال میں لانا پڑتا ہے جو دماغ کے زیادہ حصوں کو استعمال میں لانا پڑتا ہے۔اِس کے علاوہ اُردو کا سب سے اہم کردار جو ریسرچ میں سامنے آیا وہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت اور اچھے اور بُرے میں فرق کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرنا ہے۔
اُتم کمار اُردو زبان کے حوالے کئی چھپے پہلوئوں سے پردے اُٹھا رہے تھے جبکہ دوسری جانب سٹیج پر پردے گرائے جا رہے تھے ۔اُتم کمار نے اپنی گفتگو سمیٹتے ہوئے اپنی نشست پر پہنچے تو لمحہ بھر کیلئے بالکل خاموشی طاری تھی۔کہ اچانک ایک گرج دارآواز کی جانب سماعتیں متوجہ ہوئیں۔۔١٨٥٠ کا زمانہ۔۔۔لال قلعہ کا ایک منظر۔۔نہ دیوان خاص۔۔نہ دیوان عام۔۔۔ایک جانب سبزہ۔۔۔صاف چبوترہ۔۔۔مغلیہ شان و شوکت سے عاری۔۔۔بہادر شاہ ظفر کی سادگی کا مظہر۔۔۔یہاں کیا ہونے والا ہے ؟۔۔۔پھر آواز کانوں کے پردوں سے ٹکراتی ہے ۔۔۔مومن صاحب طرحی مصرع کیا ہے ؟۔۔۔ظلَ سبحانی پردے کے پیچھے اپنے عہد کے نامور شعراء کرام کے ہمراہ سٹیج پر جلوہ آفروز ہوتے ہیں۔۔۔دعاکیلئے ہاتھ آسمان کی جانب بلند ہوتے ہیں۔۔۔آخری مشاعرے کی تلخی سے دِل اُٹھ گیا تھا،سوچا تھا کہ اب مشاعرہ نہیں ہوگا،ظلِ سبحانی کہتے ہوئے بیٹھ جاتے ہیں۔۔۔بے تکلف سی گفتگو جاری ہے کہ اچانک ظلِ سبحانی ایک حکم صادر کردیتے ہیں کہ اِس بار مشاعرے کی نظامت ایک شاعر کرے گا ۔۔۔دبے لہجے میں مخالفت اور فیصلے پر نظرثانی کی ہلکی پھلکی تکرار کے بعد سبھی سر خم تسلیم کر لیتے ہیں ۔مشاعرے کی تاریخ میں پہلی بار نظامت کا سہراجس شاعر کے سر سج رہا تھا،وہ خوش نصیب مرزا اسد اللہ غالب تھے۔اور یوں ایک دلچسپ لال قلعہ کا آخری مشاعرہ(تمثیلی مشاعرہ) اپنے اصل رنگ لئے شروع ہوتا ہے۔
آنکھیں دھنگ تھی کہ ماضی حال میں موجود تھااور جبکہ خوبصورت مکالمہ بازی،اندازِنظامت،شعراء کے ادبی مزاح،مہذب تنقید،مشہور زمانہِ اُردو کلام کی آمیزش کے بدولت ہم ماضی میں موجود تھے۔اِس مشاعرے کے رائیٹر اورہدایتکار ڈاکٹر ایم سعید عالم جو مرزا غالب کا کردار بھی باخوبی ادا کررہے تھے،مومن، آغا جان، بہادر شاہ ظفر، ذوق، غلام رسول شوق، بال موکند حضور، سخنور رُکن، آذُوردا، داغ دہلوی اور سشلا کا کردار ادا کرنے والی فنکاروں کے اصل نام بالترتیب کچھ یوں ہیں،ساحر خان، عیش، ویشنو شرما، ایمن انصاری، منیش سنگھ، حنان سنگھ، آرن، پرتاپ، ساحل جان اور یشراج تھے۔شرکاء نے دلجمعی سے تمثیلی مشاعرہ سُنا اور ہر کلام کے ہر مصرعے پر داد لٹاتے رہے فنکاروں کی پرفارمنس کو بھی خوب سراہا گیا۔ مشاعرہ اختتام کو پہنچا تو ظل سبحانی کی تقلید میں سبھی نے ہاتھ جانب ِآسمان بلند کئے اور دعائیہ کلمات پیش کئے۔
جس نت نئے انداز،پیراہے ،ذاویوںمیں اُردو کی چاشنی سے رستیِ اِس محفل کو سجا گیا تھا، قابل دید بھی تھا ،قابل رشک بھی ،قابل تعریف بھی اور قابل تقلیدبھی۔۔اس محفل کے بعد میں بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ”بزم اُردو،دبئی” کی کاوششوں سے پاک و ہند کی تہذیب کی سنہری تاریخ سے مزین کتب میں سے اُردو ادب کے اوراق کبھی پھیکے نہیں پڑ سکتے۔