تحریر: سید انور محمود ہماری ویب رائٹرز کلب کی جانب سے 19 اگست 2017 کو پاکستان کے 70ویں یوم آزادی کے سلسلے میں ایک مجلس مکالمہ بعنوان “پاکستان کی آزادی کے 70 سال اور موجودہ تحریکیں“ کا انعقاد کیا گیا۔ مجلس مکالمہ کا مقصد ان وجوہات کی تلاش تھی جن کی وجہ سے 70 سال کے بعد بھی پاکستان میں ترقی نہ ہوسکی اور وہ ممالک بھی پاکستان سے آگے نکل گئے ہیں جو پاکستان کے بعد وجود میں آئے ہیں۔مجلس مکالمہ کے مہمان خصوصی جناب پروفیسرشفیع ملک صاحب تھے جبکہ ہماری ویب رائٹرز کلب کے صدر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی اور جنرل سیکرٹری عطا محمد تبسم کے ساتھ ساتھ کافی ممبران نے اس مجلس مکالمہ میں شرکت کی اور اپنے اپنے قیمتی خیالات کا اظہار کیا۔ زیادہ تر اراکین پاکستان کے سیاسی نظام سے قطعی مطمئن نہیں تھے۔دوسرئے اراکین کی باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے میرا کہنا تھا کہ پاکستان کو اگر ترقی یافتہ ملک بنانا ہے تو سب زیادہ توجہ تعلیم پر دینی چاہیے، تعلیم ہی لوگوں کو شعور دیتی ہے۔ آج چین کا شمار دنیا میں صف اول کےممالک میں ہوتا ہے۔ چینی دانشور اپنی کہاوتوں اور محاوروں کےلیے خاصے مشہور ہیں۔ ان کی کہاوت ہے کہ ’’اگر ایک سال کی منصوبہ بندی کرنی ہے تو مکئی لگاؤ، اگر دس سال کی منصوبہ بندی کرناچاہتے ہو تو درخت لگاؤ اور اگرصدیوں کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہو تو اپنے عوام کی تربیت کرو انھیں بہترین تعلیم دو‘‘۔ شاید کبھی پاکستان کے حکمرانوں کی سمجھ میں یہ چینی کہاوت آجائے اور ہمارا ملک سو فیصد تعلیم سے آراستہ ہوجائے۔
اسلامی تاریخ میں سن آٹھ سو عیسوی سے گیارہ سو عیسوی تک کا دور علمی لحاظ سے انتہائی ترقی یافتہ دور تھا، اس تین سو سالہ دور میں جب پورا یورپ مرتدوں کو ٹھکانے لگانے میں مصروف تھا، بغداد دنیا بھر میں مرکزِ علم و دانش تھا۔ اس دور میں بغداد بلاتفریقِ رنگ و نسل ہر موضوع پر علم رکھنے والوں کے لئے کھلاتھا، مسلمان، عیسائی، یہودی سب ایک ہی شہرمیں علم اور نظریات کا تبادلہ کررہے تھے۔ یہ وہ دور تھا جس میں بنی نوع انسان نے انجینئرنگ، حیاتیات، طب اور ریاضی میں زبردست ترقی کی۔ گیارہ ستمبر کو امریکہ پر حملے کےچند دن بعد سابق امریکی صدر جارج بش نے دہشتگردوں اور اپنے درمیان فرق وضح کرنے کے لئے انجیل سے ایک حوالہ دیا کہ ’’ہمارا خدا وہ خدا ہے جس نے ستاروں کو ان کے نام دیئے‘‘۔ امریکی صدر کی لاعلمی کا اندازہ اسطرح لگایا جاسکتا ہے کہ ستاروں کے جھرمٹوں کے نام تو یونانی اور لاطینی میں ہے لیکن جن ستاروں کو نام دیئے گئے ہیں ان کی اکثریت کا نام عربی زبان میں ہے۔آج ہم جو ہندسے 1, 2, 3 کااستعمال کرتے ہیں، کیا آپ جانتے ہیں کہ انہیں کیا کہا جاتا ہے؟ انہیں عربی ہندسےکہا جاتاہے، آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ ہندسے جنہیں روز ہم استعمال کرتے ہیں عربی ہندسے کہلاتے ہیں؟ وجہ یہ ہے کہ اس دور کے مسلم ریاضی دانوں نے صفر کی ایجاد سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ریاضی کی ایک نئی شاخ الجبراء تخلیق کی، خود الجبراء ایک عربی نام ہے، الگورتھم ایک عربی نام ہے۔ آج کے کئی جدید علوم مثال کے طور پر ریاضی اور فلک پیمائی کی جڑیں اس دور سے جاملتی ہیں۔
مسلمانوں کے اس سنہری دور کے بعدکچھ ایسا ہوا جس نے اسلامی دنیا کی ترقی کو تنزلی کے راستے پر ڈال دیا، جبکہ علمی ترقی مسلمانوں کا تہذیبی ورثہ تھا تو کیوں وہ دوبارہ ایسا کرنے میں ناکام رہے؟ اسلیے کہ انہوں نے علم سے منہ موڑ لیا تھا۔ مغلوں نے 1526 سے 1857 تک برصغیر پر حکومت کی لیکن تعلیم کےلیے کچھ نہیں کیا، پورے مغل دور میں یا تو سازشیں ہوتیں رہیں یا پھر عمارتیں بنتیں رہیں، مانا کہ تاج محل آج دنیا کا ساتواں یا آٹھواں عجوبہ ہے لیکن بنی نوع انسان کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ یورپ میں آکسفورڈ یونیورسٹی بن رہی تھی اور ہندوستان میں تاج محل۔اگرشاہجان تاج محل کی جگہ ایک اسکول بناجاتا تو شاید یہ تاج محل سے زیادہ انسانیت کی خدمت ہوتی۔سرسید احمد خان کے پاس وہ وسائل ہر گز نہیں تھے جو مغلوں کے پاس تھے، لیکن سرسید احمد خان کو تعلیم کی اہمیت معلوم تھی، علیگڑھ میں سرسید احمد خان نے جو اسکول قائم کیا تھا قیام پاکستان کے وقت وہ ایک بڑی یونیورسٹی بن چکا تھا جسکے طلبا نے پورئے ہندوستان میں پاکستان کے قیام کےلیے کام کیا تھا۔
ستر سال پہلے پاکستان تو بن گیا لیکن ستر سال میں ہمارے حکمرانوں نے اپنے عوام کےلیےکچھ نہیں کیا ، یہ ہی وجہ ہے کہ آج عام آدمی کی زندگی تلخیوں سے بھری ہوئی ہے۔ ان کے بچوں کو تعلیم نہیں ملتی، علاج معالجہ نہ ہونے کے برابر ہے، بہت بڑی تعداد کو پانی میلوں سے لانا پڑتا ہے، ابھی تک گھنٹوں لوڈشیڈنگ ہوتی ہے، روزگار کے مواقع نہیں، سستا اور فوری انصاف تو ایک خواب ہے۔60 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذار رہی ہے ، اس کےلیے یہ ناممکن ہے کہ وہ نجی تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلواسکیں۔ نجی تعلیمی اداروں میں فیسوں اور کتابوں کے اخراجات اتنے زیادہ ہیں کہ ایک عام آدمی اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے سے قاصرہے۔ یہ ہی وجہ ہے پاکستان میں بہت سارئے بچے جو اسکول نہیں جاپاتے وہ آپکو کسی دوکان، ہوٹل یا موٹر مکینک کی دوکان میں چائلڈ لیبر کی شکل میں نظر آتے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق 20 کروڑ کی آبادی والے ملک پاکستان میں ایک کروڑ سے زیادہ بچے چائلڈ لیبر ہیں۔چائلڈ لیبر بچوں کی ایک کثیر تعداد ملک کے مختلف شہروں کے مختلف مقامات میں ہوٹلوں، کارخانوں، ورکشاپوں، گھروں اور صنعتی مراکز پر کام کرتی ہوئی پائی جاتی ہے۔ یہ بچے مستقبل کے معمار ہیں لیکن معاشی مجبوریوں کی وجہ سے یہ بچے اسکول جانے کے بجائے محنت مزدوری کررہے ہوتے ہیں۔
اکیس اگست2017 کو ڈاکٹرعطاالرحمان کا ایک مضمون بعنوان ’’ اعلیٰ تعلیم کی تباہ کن صورت حال‘‘ روزنامہ جنگ میں شایع ہوا ہے اس مضمون کا ایک چھوٹا سا حصہ:۔’’حال ہی میں ہماری حکومت نے تمام جامعات کے ترقیاتی بجٹ میں ساٹھ فیصد کمی کرکے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے شعبہ کو ایک مہلک مالی دھچکا پہنچایا ہے۔2016-2017میں پاکستانی جامعات کو مختص کیا جانے والا اصل بجٹ21.48 ارب روپے تھا لیکن اس میں سے صرف8.42 ارب روپے کی رقم جاری کی گئی۔ فنڈز کو تعلیم کےبجائے بس اسکیموں کے منصوبوں پر خرچ کر دیا گیا اور پاکستانی جامعات کو قابل رحم حالت میں چھوڑ دیا گیا۔ پاکستان میں 2003سے2008کے دور کو اعلیٰ تعلیم کا سنہری دور کہا گیا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے میدان میں ہونے والی تیز رفتار ترقی نے بھارت میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی تھیں۔ بھارتی وزیراعظم کے سامنے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں ہونے والی ترقی کے حوالے سے ایک تفصیلی میٹنگ ہوئی جو کہ بھارت کے بڑے اخباروں نے نمایاں طور پر شائع کی اور ہندوستان ٹائمز کی سرخی یہ تھی ’ہندوستان کی سائنس کو پاکستان سے خطرہ‘۔ انڈیا کو اس حوالے سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ دشمن تو خود ہمارے درمیان موجود ہیں۔ دراصل ملک کو تباہ کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ اُس ملک کی تعلیم کو تباہ کردیا جائے تاکہ اس کے نوجوان نہ اُبھر سکیں‘‘۔ان ہی وجوہات کی بناہ پر 70 سال کا پاکستان آگے نہیں بڑھ پایا۔
تعلیم کا مطلب حصول علم سے بھی کچھ زیادہ ہے۔ تعلیم سے نہ صرف شخصیت میں نکھار پیدا ہوتا ہے بلکہ یہ انسان کو سیاسی اور سماجی شعور بھی دیتی ہے۔لیکن یہ بات حکمرانوں کے مفاد میں نہیں ہے اس لیے آج تک پاکستان کی ہر حکومت نے تعلیم کا بجٹ کم سے کم رکھا۔ تعلیم کسی بھی ریاست کی اقتصادی اور سیاسی ترقی، جمہوریت اور سماجی انصاف کے لیے ایک بنیادی شرط ہے۔ اب آپ سمجھ گئے ہونگے کہ پاکستان میں تعلیم کی کمی کی کیا وجوہات ہیں اور کیوں 70 سال کے بعد بھی پاکستان آگے نہ بڑھ سکا۔ آخر میں میری ہماری ویب رائٹرز کلب کے صدر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی اور جنرل سیکرٹری عطا محمد تبسم صاحب سے گذارش ہے کہ اس طرح کے مجلس مکالمہ اگر ہر تین ماہ بعد کیے جایں تو بہت سود مند رہینگے۔