تحریر : پروفیسر رفعت مظہر ہم نے اِنہی کالموں میں ایک سے زائد مرتبہ لکھا کہ نااِہل وزیرِاعظم عوام میں زیادہ مقبول اور اپوزیشن کے لیے زیادہ خطرناک ثابت ہوگا۔تعصب کی عینک کے پیچھے سے جھانکنے والے تو شاید تسلیم نہ کریں لیکن حقیقت یہی ہے کہ پانچ رکنی بنچ کے متنازع ٍفیصلے کے بعد نااِہل وزیرِاعظم میاں نوازشریف نے اسلام آباد سے لاہور تک 280 کلومیٹر طویل ریلی نکال کر یہ ثابت کر دیا کہ وہ عوام میں پہلے سے بھی زیادہ مقبول ہوگئے ہیں۔ اِس تاریخی ریلی نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ عوام نے میاں صاحب کی نااہلی کا فیصلہ قبول نہیں کیا۔
غالباََ عدلیہ کی تاریخ میں یہ دوسرا موقع ہے جب عوام نے عدلیہ کے فیصلے کو مسترد کیا ۔ 4 اپریل 1979ء کو ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ بھی متنازع تھا جس کے خلاف پیپلزپارٹی اپنے اقتدار کے چوتھے دَور میں سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کر چکی ہے جس پر تاحال کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔ اب پاناما پیپرز پر عدلیہ کا یہ دوسرا فیصلہ ہے جسے عوام کی واضح اکثریت قبول کرنے سے انکاری ہے۔ میاںنواز شریف اور اُن کا خاندان نظرثانی کی اپیلیں دائر کر چکے ہیں ۔ کبھی کبھار ہی ایسا ہوتا ہے کہ نظرِثانی کی اپیل پر عدلیہ اپنا فیصلہ تبدیل کر دے۔ وجہ اِس کی یہ ہے کہ عدلیہ کبھی اپنے کسی غلط فیصلے پر ڈَٹ کر کھڑی نہیں ہوا کرتی۔ 25 اگست کو میاں نوازشریف نے ایوانِ اقبال میں وکلاء کنونشن سے خطاب کیا جس میں اُنہوں نے اِس عدالتی فیصلے پر 13 سوالات اُٹھائے جو بہرحال جواب کے متقاضی ہیں۔
اِس کنونشن میں وکلاء کی بھرپور نمائندگی نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ میاں صاحب کی مقبولیت پہلے سے زیادہ ہو چکی ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ میاں نوازشریف کی نااِلی کے بعد خالی ہونے والے حلقے 120 کا ضمنی انتخاب اِس مقبولیت پر مہرِ تصدیق ثبت کر دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اِس حلقے پر پورے پاکستان کی نظریں ہیں اور اِسے نوازلیگ کے لیے چیلنج سمجھا جا رہا ہے۔ اِس نشست پر سابق خاتونِ اوّل بیگم کلثوم نواز سمیت 63 اُمیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی موجود ہیں جن میں پیپلزپارٹی اور جماعتِ اسلامی بھی شامل ہے لیکن اصل مقابلہ نوازلیگ کی بیگم کلثوم نواز اور تحریکِ انصاف کی ڈاکٹر یاسمین راشد کے مابین ہے جو 2013ء کے الیکشن میں میاں نوازشریف سے شکست کھا چکی ہیں۔ بیگم کلثوم نواز اپنی بیماری کے سبب اچانک لندن چلی گئیں جہاں اُن کے گلے میں کینسر کی تشخیص ہوئی جس کا علاج شروع ہو چکاہے اِس لیے 17 ستمبر کو ہونے والے ضمنی الیکشن سے پہلے اُن کا وطن لوٹنا ممکن نظر نہیں آتا۔ لیگی حلقوں کے مطابق اب اِس حلقے میں محترمہ مریم نواز انتخابی مہم کی ذمہ داریاں نبھائیں گی۔ 2013ء کے انتخابات میںبھی مریم نوازنے اِسی حلقے میں میاں نوازشریف کی جگہ انتخابی مہم چلائی تھی۔
نااہلی کے بعد سے میاں نواز شریف جاتی امرا میں رہائش پذیر ہیں۔ یوں سمجھ لیجئے کہ اب وزیرِاعظم ہاؤس اسلام آباد سے جاتی اُمرا منتقل ہوگیا ہے جہاں تقریباََ ہر روز مشاورتی اجلاس ہو رہے ہیںاور جوڑتوڑ کا سلسلہ جاری ہے۔ اب میاں نوازشریف جاتی امرا میں بیٹھ کر حلقہ 120 کی انتخابی مہم کی نگرانی کریں گے ۔ یہ حلقہ بنیادی طور پر مسلم لیگ نون کا گڑھ اور محفوظ ترین حلقہ سمجھا جاتا ہے ۔ یہاں سے مسلم لیگ ہی متواترجیتتی چلی آرہی ہے۔ یہ بجا کہ2013 کے الیکشن کے بعد میاں نوازشریف ذاتی طور پر اِس حلقے میں نہیں جا سکے لیکن ترقیاتی کام بہرحال جاری رہے ۔ اِس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ بیگم کلثوم نواز آسانی سے جیت جائیں گی۔
اِس حلقے میں کانٹے کا مقابلہ ہونے کی اُسی صورت میں توقع کی جاسکتی تھی جب تمام اپوزیشن جماعتیں بیگم کلثوم نواز کے مقابلے میں متفقہ اُمیدوار سامنے لاتیںلیکن اب صورتِ حال یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور جماعتِ اسلامی اپنے اپنے اُمیدواروں کے حق میں انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آصف زرداری اور بلاول اِسی سلسلے میں ”لاہور یاترا” بھی کر چکے ہیں۔ آصف زرداری، میاں نوازشریف کے ساتھ اُس وقت سے ناراض ہیں جب آصف زرداری کے فوج کے خلاف بیان کے بعد میاں نوازشریف نے طے شدہ ملاقات سے انکار کر دیا تھا۔ اب غالباََ بلوچ سردار یہ سمجھتے ہیں کہ بدلہ چکانے کا وقت آگیا ہے ،اِسی لیے اُنہوں نے میاں نوازشریف سے ملاقات یا ڈائیلاگ سے صاف انکار کر دیا جبکہ دوسری طرف میاں صاحب نے بھی کہہ دیا کہ اُنہیں زرداری صاحب سے ملاقات کا کوئی شوق نہیںاور نہ ہی اُنہوں نے ایسی کسی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
تجزیہ نگاروں کا خیال تو یہی تھا کہ شاید پیپلزپارٹی اورتحریکِ انصاف کوئی متفقہ امیدوار سامنے لانے میں کامیاب ہو جائیں لیکن اللہ بھلا کرے کپتان کا جنہوں نے ایسی کسی بھی افہام وتفہیم کے سارے راستے یہ کہہ کر مسدود کر دیئے ہیں کہ پیپلزپارٹی سے ”مائینس زرداری”کی صورت میں ہی بات چیت ہو سکتی ہے۔ 25 اگست کو سکھر میں جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے کپتان صاحب ،آصف زرداری پر خوب گرجے برسے اور اُنہیں ”فرعون”’ تک کہہ دیا۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی کے دِل میں بھی تحریکِ انصاف کے لیے نرم گوشہ نہیں کیونکہ پیپلزپارٹی کے تقریباََ تمام نامی گرامی ”پہلوان ” تو تحریکِ انصاف ”ہتھیا” چکی۔ اِس لیے یہ طے ہے کہ پیپلزپارٹی اور تحریکِ انصاف میں کسی بھی صورت میں مفاہمت ممکن نہیں جو یقیناََ نوازلیگ کے لیے دِل خوش کُن ہے۔
اُدھر جماعت اسلامی بھی خیبرپختونخوا میں ”خیبربینک” کے معاملے پر تحریکِ انصاف سے ناخوش ہے کیونکہ وزیرِاعلیٰ پرویزخٹک وعدے کے باوجود اِس معاملے پر لیت ولعل سے کام لے رہے ہیں۔ ویسے بھی الیکشن 2018ء کی آمد آمد ہے اِس لیے انتخابات سے پہلے جماعت اسلامی یہ چاہے گی کہ اُس کا الگ تشخص برقرار رہے۔ ایسی صورت میں جماعت اسلامی کی کوشش ہوگی کہ یا تو ایم ایم اے کو بحال کیا جائے یا پھر دینی جماعتوں کے ساتھ مِل کر نیا اتحاد قائم کیا جائے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی نے حلقہ NA-120 میں تحریکِ انصاف کی حمایت کی بجائے اپنا اُمیدوار کھڑا کر دیا ہے۔ مولانا طاہرالقادری (کپتان کے سیاسی کزن) دیت کی اگلی قسط وصول کرکے ”اپنے دیس ” لوٹ چکے اِس لیے اب یاسمین راشد کو اکیلے ہی یہ پُل صراط پار کرنا ہوگا جو بظاہر تو ممکن نظر نہیں آتا۔ لیکن بہرحال یہ طے ہے کہ ڈاکٹر یاسمین راشد اِس حلقے میں اپنی بھرپور صلاحیتوں کو بروئے کار لا رہی ہیں اور اگر مقابلے کی فضاء نظر آتی ہے تو صرف نوازلیگ اور تحریکِ انصاف کے مابین ،باقی سب تو بَس ”ایویں ای” ہیں۔