تحریر : دیا خان بلوچ، لاہور کیا مصیبت ہے یار ،ہر وقت لائٹ ہی نہیں ہوتی۔اس ملک نے ہمیں کیا دیا ہے؟نہ پانی ،نہ بجلی ،نہ گیس۔۔جب جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہی چیز یا تو غائب ہوتی ہے یا پھر بہت مہنگی۔احمد جو ابھی ابھی باہر سے آیا تھا،پسینے میں شرابور تھا۔سورج بھی آگ برسا رہا تھا۔اس نے گھر میں داخل ہوتے ہی روم کولر چلایا تھا لیکن دومنٹ بعد ہی لائٹ چلی گئی تھی۔احمد نے جھنجھلا کر کہا اور پھر اپنی قمیض کے بٹن کھول کر ہاتھ والے پنکھے سے خود کو ہوادینے لگا۔ارم آپی نے جب اس کو ایسے کہتے سنا تو اس کے پاس آئیں اور پیار سے بولیں۔
پیارے احمد ایسے نہیں کہتے ،یہ ہمارا وطن ہے اور اس کو ہم نے سنوارنا ہے۔لاﺅ مجھے تو میں ہوا دیتی ہوں۔ارم آپی نے یہ کہتے ہوئے پنکھا اس کے ہاتھ سے لیا اور جھلنے لگیں۔احمد بھی خاموشی سے بیٹھ گیا تھا۔ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ لائٹ آگئی تھی۔دونوں اٹھ کر کمرے میں چلے گئے کہ اب سکون سے سو سکیں۔
اگلے روز ارم آپی نے احمد کو اپنے ساتھ پارک تک چلنے کو کہا۔احمد بھی فارغ تھا وہ اپنا ہوم ورک پہلے ہی کر چکا تھا ،اس لئے فوراً راضی ہو گیا۔ارم آپی نے کہا احمد راستے میں موجود ہر شے کو غور سے دیکھنا۔احمد نے ان کی بات پر عمل کیا اور ہر چیز کو غور سے دیکھتا رہا۔پارک پہنچ کر آپی نے کہا:احمد تم نے راستے میں کیا کیا دیکھا؟احمد سوچنے لگا پھر بولا۔
بہت برا حال ہے پاکستان کا آپی،نا صفائی ہے نا کوئی کسی کا خیال کرتا ہے۔وہ دیکھا تھا کیسے گاڑی والا تیزی سے گزرا اگر ذرا سی بھی بے احتیاطی ہوتی تو ابھی وہ ریڑھی والا مارا جاتا۔ہر دیوار پر کچھ نہ کچھ لکھا ہوا ہے۔سڑک کے کنارے کچرے کا ڈھیر۔۔۔اف آپی میرا تو دل بہت خراب ہو رہا ہے۔پاکستان میں سب کچھ بہت گندہ ہے۔احمد نے منہ بنا کر کہا۔احمد! کیا پاکستان اپنے ساتھ یہ ساری خرابیاں اور برائیاں لایا تھا؟کیا مطلب آپی؟اس نے سوال کیا۔سیدھی سی بات ہے،پاکستان نے خود کہا ہے کہ مجھے گندہ میلا کرو؟میرے ذرے ذرے کو کچرے سے بھرو۔احمد نے نفی میں سر ہلایا۔تو پھر ہم یہ کیوں کہتے ہیں کہ پاکستا ن گندہ ہے اس میں کچھ نہیں یا اس نے ہمیں کچھ نہیں دیا ہے۔ہم یہ ساری باتیں کیسے کر سکتے ہیں احمد۔پاکستان نے ہی تو ہمیں سب کچھ دیا ہے،ان آزاد فضاﺅں میں ہم سانس لے رہے ہیں،کسی کی غلامی نہیں کر رہے ہیں ،کس کی بدولت ،احمد اس پاکستان کی وجہ سے۔ پاکستان نے تو اپنا فرض ادا کردیا ہے اب ہماری باری ہے،ہمیں اسے سنوارنا ہے،اس کو بچانا ہے ہر اس برائی سے جو اسے میلا کر رہی ہے۔اپنے پاکستان کے گوشے گوشے کو چمکانا اور مہکانا ہمارا فرض ہے۔
آپی ہم چند لوگ کیا کر لیں گے ،جب سارے ہی اس کی حفاظت نہیں کر رہے؟وہ آپی کی بات کاٹ کر بولا۔احمد بوندبوند مل کر دریا بنتا ہے آج ہم قدم بڑھائیں گے تو دیکھنا آہستہ آہستہ سب ہمارے ساتھ کھڑے ہوں گے۔احمد ہمیں اپنے ملک کا دفاع کرنا ہے ،ہمیں بتاناہے سب کو اس کے درودیوار کو صاف ستھرا ہم نے رکھنا ہے ،اس کی خوبصورتی کو ہمیں برقرار رکھنا ہے۔ہمیں اپنے وطن سے محبت کا جذبہ پیدا کرنا ہے،پھر دیکھنا کس طرح پاکستان ترقی کی منزل طے کرتا ہے۔پھر کوئی گلے شکوے نا ہوں گے۔ارم آپی نے اسے تفصیل سے بتایا۔آپی! اب ہمیںکیا کرنا چاہیے؟ہم اپنا کام آج سے شروع کرتے ہیں،اک نظر دوڑاﺅ پارک میں۔اس نے آپی کی بات پر عمل کیا۔لوگوں کا ہجوم تھا،سب کھانے پینے کی اشیاءساتھ لیے ہوئے تھے اور کھا کر ریپر وہیں پھینک کر جا رہے تھے۔احمد نے جب یہ دیکھا تو اسے بہت افسوس ہوا۔ارم آپی نے احمد کو اداس دیکھا تو اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر بولیں۔
جی ہاں پیارے بچوں،ملک کا دفاع اس طرح سے بھی کرنا ہے کہ اسے صاف رکھنا ہے،اپنے وطن سے محبت کے جذبے کو اجاگر کرنا ہے۔اس کی اہمیت کو سمجھنا ہے۔آپی آج سے ہم سب آپ کے ساتھ ہیں،اب ہم کبھی بھی یہ شکوہ نا کریں گے کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیا ہے،بلکہ اب خود سے سوال کریں گے ہر گزرتے دن کے ساتھ ہم نے اپنے وطن عزیز کو کیا دیا ہے۔ بالکل آپی،اب سے ہم یہی کیا کریں گے اور اس کے کونے کونے کو مہکادیں گے۔انشاءاللہ۔آپی نے کہا تو باقی سب بھی اونچی آواز میں بولے ان شاءاللہ۔اس کے بعد سارے گھر کی جانب روانہ ہو گئے۔سچ کہتے ہیں کہ بس ذرا سی ہمت چاہیے اور پھر منزل آسان ہوجاتی ہے۔