تحریر : ممتاز ملک. پیرس خان صاحب “کےپی ” کے نیرو نہ بنیں *جب وہاں بچے قتل ہو رہے تھے تو آپ عشق فرما رہے تھے *جب وہاں دھماکے ہو رہے تھے تو آپ دھرنے میں ناچ گانا کر رہے تھے *جب وہاں چوہے لوگوں کو موچ رہے تھے تو آپ مری کی سیریں فرما رہے تھے اور اب * جب وہاں لوگ ڈینگی سے مر رہے تو آپ پنجاب میں لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی پریکٹس کر رہے ہیں . اس” کے پی کے” میں جہاں آپ نے کاغذوں میں ہسپتالوں سکولوں کالجوں کا جال بچھا دیا ہے وہاں آج اس سال 2017 میں بھی بارہ ہراز بچے کالج نہیں جا سکیں گے کہ اتنے کالج ہی نہیں ہیں .
ڈینگی کے مریض بیچارے پنجاب سے گئے میڈیکل سٹاف کو بھی اپنا مرض نہیں بتا سکتے ،اپنی جان بچانے کی دوا نہیں لے سکتے کہ “کی پی “کا نیرو انہیں زندہ رہنے کی اجازت نہیں دے رہا ….اور میڈیکل سٹاف کی گاڑیاں پارک کروا دی گئی ہیں .
کوئی انسان اتنا ظالم کیسے ہو سکتا ہے کہ صرف اپنی ناک بچانے کے لیئے اس نے پورے صوبے کو مچھروں کے ہاتھوں مرنے کے لیئے چھوڑ دیا اور منہ کے سامنے کھڑی گاڑیوں اور ڈاکٹروں سے دوا لینا اس لیئے منظور نہیں کہ یہ اس کے مخالف نے بھیجی ہیں . کیا یہاں اس کا باپ بھائی یا بیٹا زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہوتا تو یہ ایک منٹ کو بھی سوچتا کہ یہ دوا کھلانے والا دوست ہے یا دشمن کبھی نہیں یہ اس کی جان بچانے کی کوشش کرتا بجائے بجایئے بانسری بجائیے لوگ مرتے ہیں مرتے رہیں آپ کی بلا سے نہ ان میں کوئی آپ کا باپ نہ آپ کا بھائی.. نہ ہی بیٹا ،نہ بیٹی نہ ماں نہ بہن … انجوائے خان صاحب تاریخ آپ کو ضرور یاد رکھے گی کہ ایک تھا عمران خان جسے پورا صوبہ حکومت کرنے کو ملا . اس نے لوگوں کے لیئے کینسر ہسپتال بنایا لیکن اس کی عوام چوہوں اور مچھروں کے کاٹنے سے مرتی رہی .کیوں ؟؟ کیونکہ اسے مچھروں اور چوہوں سے عوام کی جان بچانے کے عوض اربوں روپے ذکوات خیرات اور غیر ملکی فنڈنگ میں نہیں مل رہے تھے… افسوس…