تحریر : انجینئر افتخار چودھری جی ہاں سچ ہی تو کہا تھا خوجہ رفیق شہید کے بیٹے نے کہ ہم لوہے کے چنے ہیں ہمیں چبانا آسان نہیں۔اور پڑھنے والے پورے صفحے پڑھیں۔میاں نواز شریف کو عدلیہ کے ایک دلیہ کھانے والے فیصلے سے رخصت کر دیا گیا۔فیصلہ فیصلہ ہوتا ہے چاہے وہ دلیہ ہو یا بھٹوآنہ فیصلہ ہو۔وقت گزر جاتا ہے اور لوگ پھر اس پر اپنے اپنے انداز میں تبصرہ کرتے ہیں۔لیکن خواجہ سعد رفیق کے یہ جملے تاریخ کا حصہ بن جائیں گے اور ان کے پوتے پوتیاں یہ ضرور کہتے پھریں گے کہ دادا جان نے بڑی تگڑی گل کی تھی۔
آج جناب زرداری کی عزت افزائی ہوئی اور وہ تما م کیسوں میں بری ہو گئے۔ہم بھی بڑے نعرہ زن تھے کہ ایک نئے پاکستان کا آ غاز ہو گیا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مانا کہ پاکستانی سیاسی تاریخ کا وہ فیصلہ کمال کا فیصلہ تھا لیکن حضور اقامے سے بڑھ کر ثبوت موجود تھے جن کی بناء پر بڑے میاں کی چھٹی ہو سکتی تھی اور فیصلے تک پہنچنے کے لئے جے آئی ٹی نے اتنے سارے ثبوت لا کے دئے تھے کہ پھر مجھے کیوں نکالا کی رٹ نہیں لگائی جا سکتی تھی۔ فیصلہ تو ہو گیا مگر اس پر انگلیاں اٹھانی شروع کر دیں کے اس تحقیقاتی ٹیم کے ایک اہم فرد جس کا تعلق قومی ادارے سے تھا اس نے یہ ساری معلومات دیں۔
قوم آج اس چکر میں الجھا دی گئی ہے کہ میاں نواز شریف کو اقامے کا نشانہ بنایا گیا ہے ہے اس سلسلے میں جنرل حمید گل کا شہرہ ء آفاق جملہ بھی استعمال کیا جا رہا ہے جو انہوں نے متعدد بار کہا تھا کہ ایران بہانہ ہے افغانستان ٹھکا نہ ہے اور پاکستان نشانہ ہے۔سفید چادر اوڑھے لیڈی کہہ رہی تھیں کہ پانامہ اور اقامہ۔اس ایک اقامے کی تشریح اب قوم کے سامنے ہے کہ یہ اقامہ ایک ٹوکن ہے جس کے ذریعے پوری قوم کا مال براستہ دبئی باہر لے جایا گیا۔ لوگوں کو تو یہ بتایا گیا کہ آپ نے اپنے بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ نہیں لی۔گرچہ سچ یہ تھا کہ ایک ایٹمی طاقت والے ملک کا وزیر اعظم دبئی میں نوکری کرتا تھا اور اقامہ بنا کر ملکی دولت کو باہر منتقل کر رہا تھا۔نواز شریف امارات کے ذریعے عازم یورپ ہو رہے تھے ایک سیٹ میں کسے بندھے اس بندے کو بیلٹ باندھتے یاد تو آیا ہو گا کہ عمران خان کو اللہ نے اس کے لئے ایک ابابیل بنا کر بھیج دیا وہی ابابیل جو ابرہہ کے ہاتھیوں پر کنکریاں مار کر اسے بھس بنا گئی تھیں۔
آج اس کی دنیا اندھیر ہے اسے ایک بڑے پروٹو کول میں جہاز تک لے جایا گیا مگر وہ ضرور سوچتا ہو گا کہ سب کے لئے دنیا آباد ہے شہباز شریف عجیب و غریب ہیٹ پہن کر اسے رخصت کر رہا ہے مگر وہ وزیر اعلی تو ہے اس کی بیٹیاں بیٹے سب پرانے عہدوں پر بیٹھے ہیں ایک میں نہیں وہ جو ٧٧٧ پورا بک کرا لیا کرتے تھے آج ایک سیٹ پر لندن جا رہے ہیں۔حجور مسئلہ یہ ہے کہ ہم اللہ سے نہیں ڈرتے مجھے آج ٢٠٠٠ کی وہ رات یاد آ رہی ہے جب ہم میاں صاحب کے مہمان بنے تھے سہیل ضیاء بٹ ہمیں اوبیرائے ہوٹل کی کسی منزل پر لے گئے کھانے کا بندوبست تھا کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو آج ان نشستوں کے طفیل مزے کر رہے ہیں میاں صاحب نے پاکستان کے ایک اہم ادارے کے بارے میں بڑے سخت الفاظ کہے۔میں نے انہیں ٹوک دیا اور کہا کہ نہیں میاں صاحب ایسا نہیں کہا کرتے۔درمیانی راستہ اختیار کریں۔مجھے آج ڈان لیکس زمانے کا ایک کالم یاد آ گیا جو میرے محبوب اخبار کے ذمہ دار شخص نے لکھا تھا۔
یقین کیجئے میں نے کل نیٹ پر ایک ایک اونٹ کو دو افراد قابو کرتے ہوئے دیکھے۔اونٹ نے بڑے مزے سے ان میں سے ایک کی گردن اپنے منہ میں لے کر پٹخ دیا جب وہ اس کے قابو میں آیا۔وہ مٹی جھاڑتا ہوا اٹھا اور اس اونٹ کی رسی دوسرے نے بھی چھوڑ دی۔یہاں مجھے وہ سکھ بھی یاد آ گیا جن کے بارے میں میاں صاحب کہا کرتے تھے کہ ؤم بھی اسی رب کی پوجا کرتے ہیں جس کی آپ کرتے ہیں۔سکھ اور طوطا شرارت تھے انہیں سزا کے طور پر ایئر ہوسٹس نے فضاء سے نیچے پھینک دیا ۔سکھ ہوسٹس کو کہتا رہا مجھے کیوں نکالا؟طوطے نے پاس سے گزرتے ہوئے کہا کہ اگر اڑ نہیں سکتے تھے تو پنگا کیوں لیا تھا؟یہ پنگے میاں صاحب کو مروا گئے۔یقین کیجئے میں نے چند سال میاں نواز شریف کے جدہے میں گزارے ہیں۔وہ صرف اپنی موت آپ مر گئے۔کہتے ہیں سیاست دان کی موت مر کے بھی نہیں ہوتی لیکن سچ یہ بھی ہے کہ خوامخوا کے پنگے ان کی سیاسی موت بن گئے۔
سچ کہا خواجہ سعد رفیق نے کہ ہم لوہے کے چنے ہیں۔ضورر حضور ایک بڑا لوہے کا چنا کل ہی سارے کیسوں سے بری ہوا ہے آپ پر بھی کوئی قدغن نہیں ہو گی۔آپ کی نیب کے چیئرمین بھی بچ نکلے ہیں اداروں کے سربراہان کو بھی کچھ نہیں کہا جا رہا۔عمران خان اور شیخ رشید کو ایک بیگ تھما دیا گیا ہے وہ ہر بار عدلیہ کے دروازے پر انصاف کی بھیک مانگنے چلے جاتے ہیں۔اس لئے کہ قومی ادارے آپ جیسے چنوں کو چبا نہیں سک رہے اور آہستہ آہستہ کر کے سب صاف ہو رہے ہیں۔نیب سے زرداری بھی صاف ایگزیٹ کنٹرول لسٹ سے ڈاکٹر عاصم بھی آئوٹ۔ثابت یہ ہوا کہ تاریخ کے سارے اوراق جس کی آپ خواجہ صاحب بات کیا کرتے تھے وہ سارے آپ اور آپ جیسوں کے لئے تھے۔ورنہ ایک بے چارہ نواز شریف جسے میٹھا ڈال کر چکڑ چھولے بنا دیا گیا تھا اسے تو آسانی سے نگل لیا گیا۔
مریم نواز شریف اب اپنے والد کے اس طرح جانے پر این اے ١٢٠ میں رو رہی ہے۔اس وقت اقامے کو بنیاد بنا کر جو فضاء بنی ہے اور خاص طور پر زرداری کی رہائی کے بعد لوگ نواز شریف کے بارے میں جو سوچ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ کیا صرف نواز شریف ہی چور تھا؟یہ سارا کچھ اس کے دوست کر رہے ہیں نیب کا چیئرمین جس کے بارے میں عدالت بہت کچھ کہہ چکی ہے ایس ای سی پی کے ظفر حجازی کے بارے میں جو کچھ کہا گیا سچ پوچھیں اس کہے کی روشنی میں کسی کا کچھ نہیں بگڑا۔نیب اب ایک بڑے قومی مجرم کو مظلوم بنا رہی ہے اور اسی لئے میں کہتا ہوں کہ چنے اب بھی نہیں چبائے جا رہے اور خواجہ سعد رفیق کی بات سچ ثابت ہو رہی ہے کہ ہم لوہے کے چنے ہیں اسے کوئی نہیں چبا سکتا۔جی ہاں جب تک نیب میں اور دیگر محکموں کے سربراہ آپ کے ذاتی نوکر ہوں گے تو کوئی بھی نہیں آپ کو چبا سکتا لیکن جو گل کے چیکڑ چھولے بن گئے اور مارات پر سوار ہو گئے ان کی بھی بات کریں۔