تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی سعودی ائیر لائن کا دیو ہیکل بوئنگ طیارہ جدہ کی فضائوں میں داخل ہو چکا تھا ‘ائر ہوسٹس کی سریلی آواز کانوں میں رس گھول رہی تھی، کہ ہم جدہ پہنچ گئے ہیں، ‘میں نیم خوابیدگی سے ہوش کی وادی میں آگیا اور متجسس بچے کی طرح جہاز کی کھڑکی کی طرف سرک گیا اور نیچے جدہ شہر روشنیوں میں ڈوبا نظر آیا، ‘کرو ڑوں برقی قمقموں کی وجہ سے نیچے رنگ و نور کا سیلاب آیا ہوا تھا، ‘جیسے جیسے جہاز مین کے قریب آرہا تھا روشنیوں کی لو تیز ہوتی جارہی تھی، رنگ و نور سے بھرا آسمان زمین پر اُتر آیان ‘جیسے دھاتی پرندہ پروں کو کھولتا ہوا، نیچے آرہا تھا، ‘میری رگوں میں خون کی گردش تیز ہوتی جا رہی تھی، ‘دل کی دھڑکنیں محبوب سے ملاپ کی وجہ سے خوب دھڑک رہی تھیں، جیسے محبوب کے نظارے کے لیے سینہ شق کر کے با ہر آجا ئے گا ‘روشنیوں کا لا محدود سمندر قریب آتا جا رہا تھا ‘جہاز نے آخری غو طا لگا یا اور رن وے کے قریب آکر تھوڑی دیر بعد رن وے پر ہلکے جھٹکے سے اُتر کر دوڑنے لگا ‘سر شاری نشہ اطمینان میری رگ و پے میں دوڑنے لگا ‘کو چہ جاناں قریب آرہا تھا میں اُس ملک کی دھرتی پر اترنے کی سعادت حاصل کر رہا تھا جہاں کی خا ک کے ذرات بھی آسمانوں سے بلند ہیں آخر کا ر جہا ز رک گیا ‘احرام پہنے عاشقان تو حید اپنی اپنی سیٹوں پر کھڑے ہو گئے مجھے ابھی تک یقین نہیں آرہا تھا کہ میں بھی حج کے مسا فروں میں شامل ہو ں ‘یہ عظیم سعادت مُجھ سیا ہ کار کے مقدر میں بھی انشا ء اللہ آنے والی ہے۔
‘جہاز سے اُتر کر جیسے ہی حج ٹرمینل میں داخل ہو ئے تو عازمین حج کے سیلا ب سے واسطہ پڑا ایک کو نے سے دوسرے کو نے تک سفید احرام میں ملبوس خوا تین حضرات دنیا جہاں سے آئے ہو ئے متلا شیان حق امیگریشن کے انتظار میں کو ئی بیٹھا تھا ‘کو ئی سو رہا تھا کو ئی نوا فل پڑھ رہا تھااور کو ئی چائے وغیرہ پی رہا تھا ‘چہروں پر عقیدت و محبت کا نور پھیلا ئے عازمین حج ‘ہال میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی میں خو شی اور حیرت سے دنیا جہاں کے عاشقوں کو غور سے دیکھ رہا تھا طویل انتظا ر کے با وجود ہر کو ئی خو ش تھا کیونکہ اِن سب کے خو ابوں کے سچ ہو نے کا دن قریب آرہا تھا وہ دن جن کے سپنے انہوں نے سالوں دیکھے تھے ایسا انتظار تو قسمت والوں کو نصیب ہو تا ہے جو آج ہمیں نصیب ہو رہا تھا میں نے وضو کیا اور نوافل شروع کر دئیے ہم سے پہلے کئی جہاز آچکے تھے ‘امیگریشن حکام با ری با ری سب کو دیکھ رہے تھے۔
جیسے ہی کسی ملک کے جہاز والوں کو پکا را جاتا لوگ دیوانہ وار ہال سے دوسرے ہال کی طرح چلے جاتے ‘ہال میں کچھ آسانی پیدا ہو ئی اِسی دوران ایک اور جہاز آتا اور انسانوں کا دریا ہال میں پھر داخل ہو جا تا مجھے پہلی دفعہ طویل انتظار کابھی لطف آرہا تھا اِس سفر کا ہرقدم اور ہر سانس عبا دت تھی لہٰذا میں اپنی خلو ت سے انجمن کا لطف لے رہا تھا آخر طویل انتظار کے بعد ہما ری با ری آئی پھر امیگریشن کا ونٹر پر طویل صبر آزما عمل ‘آخر کار تقریبا چھ گھنٹے بعد ہم امیگریشن سے فارغ ہو کر اپنے سامان کی طرف بڑھے ‘سامان لینے کے بعد ہم مکہ شریف جا نے والی بسوں میں بیٹھ کر کعبہ شریف کی طرف جانے لگے ‘ہر گزرتے لمحے کے ساتھ دل کی دھڑکنیں تیز ہو تی جا رہی تھیں اور پھر ہم کر ہ ارض کے اہم ترین شہر مکہ شریف کی حدود میں داخل ہو ئے ‘دوران سفر میرا مسلسل رابطہ عرفان عزیز م کے ساتھ تھاجو حرم شریف کے اندر ہی بلند و بالا آرام دہ ہو ٹل میں میرا انتظا رکر رہا تھا دوپہر کا وقت سورج سوا نیزے پر تھا لیکن عشق اور جو ش کی وجہ سے گر می کا احساس تک نہ تھا آخر کا ر مجھے عرفان کا مسکراتا چہرہ نظر آیا اُس نے سامان پکڑا اور ہم ہو ٹل کی لفٹ میں با لا ئی منزل کی طرف چڑھنے لگے کمرے میں جاتے ہی جیسے ہی میری نظر کھڑکی کے اُس پار کعبہ شریف پر پڑی تو بے چینی بے قراری بہت بڑھ گئی تھو ڑا آرام کر نے کے بعد ہم حرم شریف کی طرف جا رہے تھے۔
ہر قدم پر مستی نشہ سرور دل کر رہا تھا کہ مجھے پر لگ جائیں اور میں اُڑ کر کعبہ شریف کے پاس چلا جائوں ‘باب عبدالعزیز کے با ہر انسانوں کا حرکت کر تا سمندر آیا اُس سمندر کو چیرتے ہو ئے ہم آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے دروازے سے داخل ہو کر خو ب آب زم زم پیا اور آگے بڑھنے لگے ‘حرم کی فضائیں اذان کی آواز سے گو نج رہی تھیں ‘اہل علم بتا تے ہیں کہ آپ جس بھی دروازے سے داخل ہو ں سب سے پہلے نظر کعبہ پر پڑتی ہے اور پہلی نظر میں جو بھی دعا مانگو وہ قبو ل ہو تی ہے ‘انسان جس بھی دروازے جس بھی زاویے سے حرم میں داخل ہو تو سامنے سیا ہ غلا ف پر سنہری آیا ت کے ساتھ کعبہ اپنے تمام تر لازوال حسن اور جلال کے ساتھ کھڑا ہو تا ہے کعبہ کو ڈھونڈنا نہیں پڑتا وہ تو خو د ہی سامنے آجا تا ہے ‘صدیوں کی پیا سی نظریں جیسے ہی اُس پر پڑتی ہیں تو اُس کا حصہ بن جا تی ہیں ‘ٹھنڈ پڑ جا تی ہے میرے سامنے بھی کعبہ اپنی پو ری آب و تا ب جمال و جلال کے ساتھ کھڑا تھا او رمیرا دل دھڑکنا بھی بھول چکا تھا میں پتھر کا بت بنا حیرت سے اُسے دیکھ رہا تھا وہ کعبہ جس پر محبوب خدا کی نظریں صحا بہ اکرام کی نظریں وقت کے ہر ولی کی نظر پڑی تھی ‘دنیا جہاں سے آئے دیوانے طواف کر رہے تھے بلند آواز میں تلبیہ پڑھ رہے تھے جسموں پر سفید احرام باندھے آسمانی مخلوق لگ رہے تھے دنیا کے چپے چپے سے آئے ہو ئے دیوانوں میں کو ئی امتیاز نہ تھا ‘ایک لباس ‘ایک زبان ‘ایک جنون ‘دیوانگی ‘شوق ‘احساس ‘نہ کو ئی با دشاہ نہ کو ئی فقیر ‘نہ کو ئی ولی نہ کو ئی گنا ہ گار ‘سب کے چہروں پر عقیدت و احترام کے پھول کھلے تھے سب کی آنکھیں نم تھیں دیوانے زندگی بھر کی آلا ئشیں پر یشانیاں چھو ڑ کر اِس گو شہ تو حید میں آئے تھے جہاں چاروں طرف تو حید کی شبنمی پھوا ر پڑ رہی تھی ‘صحن حرم انسانوں سے بھرا ہو اتھا اللہ کا حرم اِسی طرح صدیوں سے آباد ہے اور رہے گا عشق و محبت سے مالا مال دیوانے کعبہ اللہ کے گر د ‘دن رات گر می سردی سے آزاد دائرے کی شکل میں عقیدتوں کا اظہا ر کر رہے تھے رکن یما نی کی طرف بڑھتے ہا تھ اِسی طرح حرکت میں رہیں گے۔
‘حجر اسود پر عشق و محبت سے لبریز بو سوں کی برسات اِسی طرح جا ری رہے گی ‘ملتزم سے لپٹے دیوانوں کے جنون کو کون روک سکے گا ‘مقام ابراہیم کے اطراف میں دیوانوں کے سجدے ٹو ٹے پڑے تھے عاشقان تو حید آب زم زم سے سیراب ہو رہے تھے ‘میزان رحمت کے نیچے حطیم کے نیم دائرے میں نوا فل کا روح پر ور نظارہ اِسی طرح جا ری و ساری رہے گا عقیدت کی آنچ سے چہرے تمتا رہے تھے آنکھوں سے اشکوں کے سیلاب جا ری تھے ‘آہیں سسکیاں جا ری تھیں کچھ تلا وت قرآن میں مصروف اور کچھ دیوانے دنیا جہاں سے بے خبر ٹکٹکی لگا ئے خا نہ کعبہ کو دیکھتے جا رہے تھے ‘سب اپنی خطا وں پر نا دم ‘شرمندہ ‘غرق ندا مت ہو کر اشکوں کا نذرانہ پیش کر رہے تھے دنیا جہاں سے آئے گنا ہ گا ر یہاں پر طہا رت پا کیزگی کے سانچے میں ڈھل رہے تھے ‘احرام میں اللہ کے گھر کا طواف بھی خا ص لذت رکھتا ہے عرب و عجم کی بستیوں سے آنے والے دیوانے کے ایک دوسرے سے بے خبر دیوانہ وار طواف کی لذت سمٹ رہے تھے سب خدا کی بزرگی کا اعلان اپنی بندگی کا اقرار کر رہے تھے ‘اپنے گنا ہوں کی معا فی ما نگ رہے تھے سب نے جھولیاں پھیلا رکھی تھیں ‘میں اپنے گنا ہوں پر شرمندہ اپنی آنکھوں کے چھپر کھول دئیے تا کہ ندا مت کے آنسو میری بخشش کا وسیلا بن سکیں میں نے بھی اپنی جھو لی پھیلا دی اور کعبہ شریف کے گرد سمندر جو لہروں کی شکل میں بہہ رہا تھا اُس کا حصہ بن گیا۔